دو گھوڑا بوسکی
آج پھیکے سے مسجد میں ملاقات ہوئی۔۔۔! کہنے لگا صاحب جی آپ سے ضروری بات کرنی ہے جی۔۔۔! شام کو کار آؤں گا۔۔۔! پھیکے نے بات کرنی ہو تو شام کا انتظار کون کرے۔۔۔؟ میں نے کہا نہیں یار پھیکے تُو ابھی میرے ساتھ چل اور بتا کیا بات ہے۔۔۔؟ گھر آ کر میں نے بخشو سے چاۓ لانے کو کہا اور پھر پھیکے سے مُخاطب ہوا۔۔۔! ہاں بھئی اب بتا بات کیا ہے کس لیئے اتنا بے چین ہے۔۔۔؟
پھیکا کہنے لگا دو دن رہ گئے تھے کار آنے میں صاحب جی۔۔۔! بیگم صاحبہ کا ڈرائیور چھٹی پر تھا۔۔۔! بڑے صاحب نے مجھے اُن کو بازار لے کر جانے کا کہہ دیا۔۔۔! صاحب جی بیگم صاحبہ نے شاپنگ کرنی تھی۔۔۔! خورے کہاں کہاں سے مہنگے مہنگے کپڑے لیئے۔۔۔! ایک ایک جوڑا ہزاروں کا تھا۔۔۔! مِنٹوں میں لاکھوں کی شاپنگ کر لی جی بیگم صاحبہ نے۔۔۔! میں نے پوچھا بیگم صاحبہ اتنے مہنگے لون کے جوڑے ان میں کیا سونا چاندی لگا ہے۔۔۔؟ ہنس کر بولیں پھیکے تجھے نہیں پتہ یہ “ڈزینر ہیں ڈزینر”۔۔۔!
ایک تو پھیکے کی معصوم شکل اوپر سے ڈیزائنر کو “ڈزینر” کہنے کا انداز مجھے اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔۔۔! پھیکا اب جانے کیا بتانے والا تھا۔۔۔! جب سے میرے بھتیجے مدثر کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا میں نے پھیکے کو اپنے بھائی کے گھر مدثر کے پاس بھیج دیا تھا۔۔۔! دو تین ہفتے کے بعد پھیکا چند ایک روز کے لیئے گھر آ جایا کرتا۔۔۔!
میں نے پوچھا پھیکے آخر تجھے کپڑوں میں کیا دلچسپی ہو گئی۔۔۔؟ صاحب جی مجھے کیا دلچسپی ہونی ہے جی۔۔۔! میں تو بس حیران رہ گیا ایک ایک لون کا جوڑا ہزاروں کا خریدا بیگم صاحبہ نے۔۔۔! صاحب جی آخر تھا تو لون کا جوڑا ہی نا۔۔۔؟ سوچتا ہوں میری کار والی (بیوی)کا بھی دل کرتا ہو گا ڈزینر جوڑا پہننے کا۔۔۔! خورے کیوں صاحب جی دل میں پھانس سی چُبھ گئی۔۔۔! اُس نے تو کبھی فرمائش ہی نہیں کی۔۔۔! سادے سے لون کے تین جوڑوں میں ساریاں گرمیاں لنگھا لیتی ہے جی۔۔۔! میں نے گھر آ کر پوچھا تیرا دل نہیں کرتا سوہنے سوہنے جوڑے لینے کا یہ جو “ڈزینر” ہوتے ہیں۔۔۔! میرے پوچھنے پر ہنس کر کہنے لگی گُڈی کے ابّا لون جُوں جُوں دُھل کر گِھستی ہے نا پِنڈے کو ُسکھ دیتی ہے۔۔۔! مُجھے ایسی فضول سوچیں نہیں آتیں۔۔۔! میں نے کہا پھر بھی بتا تو سہی اگر میں لا کر دوں تو پہنے گی۔۔۔! صاحب جی جانتے ہیں اُس نے کیا کہا۔۔۔! کہنے لگی گُڈی کے ابّا آخر کو تو اِکو چٹا جوڑا ہی پہننا ہے۔۔۔! وہ بھی خورے نصیب ہونا ہے کہ نہیں۔۔۔! اس خاکی پنڈے کو کیڑوں نے ہی کھانا ہے نا۔۔۔! “ڈزینر” پہننے والوں کے پنڈے کوکیا کیڑے نہیں کھائیں گے۔۔۔! تجھے کیا ہو گیا ہے گُڈی کے ابّا۔۔۔! تُو جانتا ہے مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔! تُو میرے لیئے ایک ڈزینر جوڑا لانے کی بجائے چار چھ جوڑے لے کر غریبوں میں بانٹ دے۔۔۔! میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔۔۔؟ گُڈی کے ابّا جِس دن میرے دیس کے سب غریبوں کے تَن کجے گئے نا اُس دن میں بھی اپنے آپ کو ڈزینر جوڑے کا حقدار سمجھوں گی۔۔۔! صاحب جی پھیکے غریب کی اتنی امیر بیوی۔۔۔! مجھے اپنا آپ اُس کے سامنے حقیر بونا لگنے لگا جی۔۔۔! صاحب جی اُس نے تو مجھے روا ای دیا۔۔۔! اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے جی اُس نے اتنی صابر شاکر بیوی دی مُجھے۔۔۔! پھیکا روتا جا رہا تھا۔۔۔!
اب میں کیا بتاتا کہ اس کی گھر والی کی یہ بات سُن کر کہ اِس خاکی پنڈے کو تو کیڑوں نے ہی کھانا ہے نا میرے بدن میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔۔۔! مجھے اپنا چائنا کی دو گھوڑا بوسکی کا کُرتا چبھنے لگا۔۔۔! اور مجھے لگا میرے بدن پر بے شمار کیڑے رینگ رہے ہیں۔۔۔! پھیکا مجھ سے دُکھ سُکھ کرنے آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح مجھے پھر ایک نیا سبق دے گیا۔۔۔! وہ ابھی بھی رو رہا تھا میں نے دلاسہ دیا اور کندھا تھپک کر کہا ہاں پھیکے تو ٹھیک کہتا ہے۔۔۔! نیک اور قناعت پسند بیوی اللہ کی بڑی نعمت ہوتی ہے۔۔۔! یار تجھے تو خوش ہونا چاہیئے جھلیا روتا کیوں ہے۔۔۔؟
پھیکا کہنے لگا صاحب جی اُسی شام بیگم صاحبہ نے مجھے مالی کو بلانے اس کے کواٹر بھیجا۔۔۔! مالی بابا کی بیٹی نے دروازہ کھولا اُس کے کندھے سے پلو سرک گیا۔۔۔! صاحب جی اس کی قمیض کندھے سے پھٹی ہوئی تھی جسے چھپانے کے لیئے وہ بار بار پلو کھینچتی تھی۔۔۔!
پھیکا دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔۔۔! مجھے اُس کے رونے کی وجہ اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی۔۔۔!
صاحب جی میں نے اپنی کار والی کو بتایا تو اس نے اسی وقت لون کے دو کرتے مالی بابا کی بیٹی کے لیئے سی کر دیۓ۔۔۔! ہم سو ہی نہیں سکے صاحب جی اور ساری رات ڈزینر لون پہننے والی بیگم صاحبہ کے پھوٹے نصیبے پر روتے رہے۔۔۔!
میں نے اسی شام بخشو سے کہہ کر اپنے سارے بوسکی کے کرتے گاؤں کے غریب کسانوں کو بھجوا دیئے۔۔۔! پھیکا واپس شہر چلا گیا لیکن ُاس دن سے جب بھی اس کی بات یاد آتی ہے بدن پر کیڑے رینگنے لگتے ہیں۔۔۔!
آج پھیکے سے مسجد میں ملاقات ہوئی۔۔۔! کہنے لگا صاحب جی آپ سے ضروری بات کرنی ہے جی۔۔۔! شام کو کار آؤں گا۔۔۔! پھیکے نے بات کرنی ہو تو شام کا انتظار کون کرے۔۔۔؟ میں نے کہا نہیں یار پھیکے تُو ابھی میرے ساتھ چل اور بتا کیا بات ہے۔۔۔؟ گھر آ کر میں نے بخشو سے چاۓ لانے کو کہا اور پھر پھیکے سے مُخاطب ہوا۔۔۔! ہاں بھئی اب بتا بات کیا ہے کس لیئے اتنا بے چین ہے۔۔۔؟
پھیکا کہنے لگا دو دن رہ گئے تھے کار آنے میں صاحب جی۔۔۔! بیگم صاحبہ کا ڈرائیور چھٹی پر تھا۔۔۔! بڑے صاحب نے مجھے اُن کو بازار لے کر جانے کا کہہ دیا۔۔۔! صاحب جی بیگم صاحبہ نے شاپنگ کرنی تھی۔۔۔! خورے کہاں کہاں سے مہنگے مہنگے کپڑے لیئے۔۔۔! ایک ایک جوڑا ہزاروں کا تھا۔۔۔! مِنٹوں میں لاکھوں کی شاپنگ کر لی جی بیگم صاحبہ نے۔۔۔! میں نے پوچھا بیگم صاحبہ اتنے مہنگے لون کے جوڑے ان میں کیا سونا چاندی لگا ہے۔۔۔؟ ہنس کر بولیں پھیکے تجھے نہیں پتہ یہ “ڈزینر ہیں ڈزینر”۔۔۔!
ایک تو پھیکے کی معصوم شکل اوپر سے ڈیزائنر کو “ڈزینر” کہنے کا انداز مجھے اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔۔۔! پھیکا اب جانے کیا بتانے والا تھا۔۔۔! جب سے میرے بھتیجے مدثر کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا میں نے پھیکے کو اپنے بھائی کے گھر مدثر کے پاس بھیج دیا تھا۔۔۔! دو تین ہفتے کے بعد پھیکا چند ایک روز کے لیئے گھر آ جایا کرتا۔۔۔!
میں نے پوچھا پھیکے آخر تجھے کپڑوں میں کیا دلچسپی ہو گئی۔۔۔؟ صاحب جی مجھے کیا دلچسپی ہونی ہے جی۔۔۔! میں تو بس حیران رہ گیا ایک ایک لون کا جوڑا ہزاروں کا خریدا بیگم صاحبہ نے۔۔۔! صاحب جی آخر تھا تو لون کا جوڑا ہی نا۔۔۔؟ سوچتا ہوں میری کار والی (بیوی)کا بھی دل کرتا ہو گا ڈزینر جوڑا پہننے کا۔۔۔! خورے کیوں صاحب جی دل میں پھانس سی چُبھ گئی۔۔۔! اُس نے تو کبھی فرمائش ہی نہیں کی۔۔۔! سادے سے لون کے تین جوڑوں میں ساریاں گرمیاں لنگھا لیتی ہے جی۔۔۔! میں نے گھر آ کر پوچھا تیرا دل نہیں کرتا سوہنے سوہنے جوڑے لینے کا یہ جو “ڈزینر” ہوتے ہیں۔۔۔! میرے پوچھنے پر ہنس کر کہنے لگی گُڈی کے ابّا لون جُوں جُوں دُھل کر گِھستی ہے نا پِنڈے کو ُسکھ دیتی ہے۔۔۔! مُجھے ایسی فضول سوچیں نہیں آتیں۔۔۔! میں نے کہا پھر بھی بتا تو سہی اگر میں لا کر دوں تو پہنے گی۔۔۔! صاحب جی جانتے ہیں اُس نے کیا کہا۔۔۔! کہنے لگی گُڈی کے ابّا آخر کو تو اِکو چٹا جوڑا ہی پہننا ہے۔۔۔! وہ بھی خورے نصیب ہونا ہے کہ نہیں۔۔۔! اس خاکی پنڈے کو کیڑوں نے ہی کھانا ہے نا۔۔۔! “ڈزینر” پہننے والوں کے پنڈے کوکیا کیڑے نہیں کھائیں گے۔۔۔! تجھے کیا ہو گیا ہے گُڈی کے ابّا۔۔۔! تُو جانتا ہے مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔! تُو میرے لیئے ایک ڈزینر جوڑا لانے کی بجائے چار چھ جوڑے لے کر غریبوں میں بانٹ دے۔۔۔! میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔۔۔؟ گُڈی کے ابّا جِس دن میرے دیس کے سب غریبوں کے تَن کجے گئے نا اُس دن میں بھی اپنے آپ کو ڈزینر جوڑے کا حقدار سمجھوں گی۔۔۔! صاحب جی پھیکے غریب کی اتنی امیر بیوی۔۔۔! مجھے اپنا آپ اُس کے سامنے حقیر بونا لگنے لگا جی۔۔۔! صاحب جی اُس نے تو مجھے روا ای دیا۔۔۔! اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے جی اُس نے اتنی صابر شاکر بیوی دی مُجھے۔۔۔! پھیکا روتا جا رہا تھا۔۔۔!
اب میں کیا بتاتا کہ اس کی گھر والی کی یہ بات سُن کر کہ اِس خاکی پنڈے کو تو کیڑوں نے ہی کھانا ہے نا میرے بدن میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔۔۔! مجھے اپنا چائنا کی دو گھوڑا بوسکی کا کُرتا چبھنے لگا۔۔۔! اور مجھے لگا میرے بدن پر بے شمار کیڑے رینگ رہے ہیں۔۔۔! پھیکا مجھ سے دُکھ سُکھ کرنے آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح مجھے پھر ایک نیا سبق دے گیا۔۔۔! وہ ابھی بھی رو رہا تھا میں نے دلاسہ دیا اور کندھا تھپک کر کہا ہاں پھیکے تو ٹھیک کہتا ہے۔۔۔! نیک اور قناعت پسند بیوی اللہ کی بڑی نعمت ہوتی ہے۔۔۔! یار تجھے تو خوش ہونا چاہیئے جھلیا روتا کیوں ہے۔۔۔؟
پھیکا کہنے لگا صاحب جی اُسی شام بیگم صاحبہ نے مجھے مالی کو بلانے اس کے کواٹر بھیجا۔۔۔! مالی بابا کی بیٹی نے دروازہ کھولا اُس کے کندھے سے پلو سرک گیا۔۔۔! صاحب جی اس کی قمیض کندھے سے پھٹی ہوئی تھی جسے چھپانے کے لیئے وہ بار بار پلو کھینچتی تھی۔۔۔!
پھیکا دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔۔۔! مجھے اُس کے رونے کی وجہ اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی۔۔۔!
صاحب جی میں نے اپنی کار والی کو بتایا تو اس نے اسی وقت لون کے دو کرتے مالی بابا کی بیٹی کے لیئے سی کر دیۓ۔۔۔! ہم سو ہی نہیں سکے صاحب جی اور ساری رات ڈزینر لون پہننے والی بیگم صاحبہ کے پھوٹے نصیبے پر روتے رہے۔۔۔!
میں نے اسی شام بخشو سے کہہ کر اپنے سارے بوسکی کے کرتے گاؤں کے غریب کسانوں کو بھجوا دیئے۔۔۔! پھیکا واپس شہر چلا گیا لیکن ُاس دن سے جب بھی اس کی بات یاد آتی ہے بدن پر کیڑے رینگنے لگتے ہیں۔۔۔!