June 30, 2019

AFGHANISTAN RELATIONS WITH PAKISTAN



افغانستان کی پاکستان میں مداخلت کی تاریخ

پی ٹی ایم بضد ہے کہ میچ میں اگر افغانیوں نے چند پاکستانیوں کو مار بھی دیا تو کون سی قیامت آگئی۔ پاکستان اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے جو اس نے افغانستان میں آج تک کیا!
پاکستان نے کیا یا افغانستان نے؟
آئیں آج آپ کو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔
 تیس ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔
ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ " پشتونستان" کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔
 ایلچی نجیب اللہ  1947 ء میں ہی افغان نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔
قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
1948ء میں افغانستان نے " قبائل " کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔
سن 1948ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔
 روس بنائی ہوئی افغان فضائیہ نے  1949  میں طیاروں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
 بارہ اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
 اگست31، 1949ء کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔ اس جرگے میں ہر سال "31 اگست" کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسی جرگہ میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً "سرشتہ گروپ" تھا۔
اس کی دہشت گردانہ کاروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں۔
فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔
ء 1949 میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔
جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دئیے گئے۔
ء میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر " مہر علی " نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے 1954 ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ 1950 میں دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشتگرد "سعد اکبر ببرج" مردود نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔ یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کردیا۔
لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
 جنوری6، 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ "پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے"
نومبر26، 1953 کو افغانستان کے کےنئے سفیر "غلام یحیی خان طرزی" نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انہوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
 مارچ28، 1955 میں افغانستان کے صدر "داؤد خان" نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
ء 55میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔
یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ اس کی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا۔
مئی 1955ء میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نے بیان جاری کیا کہ " اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے"۔ جس کے بعد وہ رک گئے۔
انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر "میخائل وی۔ ڈگٹائر" نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
نومبر1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں۔
مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
 ستمبر 1960،28، کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کردیا۔
پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس دھکیل دیا۔
ء 1960کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
ء 1960میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔
مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔
اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔
افغان حکومت نے حملے کی حقیقت سے انکار کردیا۔
جولائی 1963ء میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔
اس کے بعد دو سال تک امن رہا۔
ء 1965میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔
لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔
ء1970 میں افغانستان نے اے این پی والوں کے " ناراض پشتونوں" اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے۔ عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے۔
ء1971 میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔
اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہونگے۔
ء 1972میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔
تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر "آزاد بلوچستان" تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغان تخریب کاریاں جاری رہی۔
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخرپاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
ء1973 میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے "پشتون زلمی" کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔
ء 1974میں افغانستان نے " لوئے پشتونستان" کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ تصویر پوسٹ کے ساتھ ہے۔
فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم "پشتون زلمی" نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔
(بحوالہ کتاب "فریب ناتمام" از جمعہ خان صوفی)
 اپریل28، 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت "پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان" نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے "انقلاب ثور" کا نام دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔
کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی " لوئے پشتونستان" کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔
ء 1979میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
 دسمبر24، 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے۔
یعنی بلوچستان اور کے پی کو لے لینگے۔
روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مدد کی۔
ء 1980میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبنیہ طور پر پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کر دیا۔
ء 79سے 89ء تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ کے جی بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوۓ۔
ء 2006سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ ملکر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے۔
ان تمام تنظیموں کی مشترکہ کارائیوں میں اب تک 60،000 پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد پشتون، تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں۔ پاکستان کو کم از کم 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان پندرہ سالوں میں افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کرائے ان کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔
اسی عرصے میں امریکہ نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی سرحدوں پر ڈیوہ اور مشال کے نام سے اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاز کیا جن کا تقریباً سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے یا لوئے پشتونستان کے علمبرداروں پر۔
ان ریڈیو چینلز نے ان دونوں علاقوں میں پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔
افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پر کیا گیا جس میں بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر7 افغان دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس میں 150 بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کردیا۔
جون 2016ء میں افغان نیشنل آرمی نے تورخم بارڈر پر گیٹ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد خان کو شہید کر دیا۔
پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہوگئیں۔
بعد میں زخمی فوجیوں کا علاج کرنے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی۔
5 مئی 2017ء کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن، بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 پاکستانی سویلینز ( پشتون) شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوۓ۔
جواباً پاک فوج کے حملے میں 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔
اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفےکے بعد دہشتگرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظمیوں کے مراکز افغانستان میں ہیں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب ڈیوہ اور مشال کی مسلسل محنت رنگ لے آئی۔
اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آباد کاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018ء میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے۔ افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے ان کی اعلانیہ حمایت کی۔
افغانیوں نے افغانستان سمیت دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
اسی تحریک میں " پاکستان مردہ باد" ۔۔ " اسرائیلی آرمی زندہ باد" ۔۔ " دہشت گردی کے پیچھے وری" ۔۔ " لرو بر یو پشتون ( لوئے پشتونستان ) اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دئیے گئے۔
افغان شعراء نے اس کے حق میں شاعری کی، غزلیں لکھیں، افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت میں آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کبھی کسی نے دیکھی نہ پہنی کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا۔
وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنہوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس نئی تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگینڈا شروع کردیا۔
پی ٹی ایم مخالفین یا پاکستان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک ماتوڑکے، ملک عباس اور ایس پی طاہر داؤڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔
ایس پی طاہر داؤڑ کو این ڈی ایس کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور پھر افغان حکومت نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاش پی ٹی ایم کے حوالے کی گئی۔
چند دن پہلے جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو تمام افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
افغانستان میں ہی این ڈی ایس اور ملا تور کے زیر قیادت ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا جس میں ٹی ٹی پی نے انڈین جہاز گرانے پر پاکستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
فاٹا طلباء کے لیے مفت داخلوں کا اعلان کیا۔ جو طلباء اس جھانسے میں آکر افغانستان گئے انکا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
دو دن پہلے پکتیکا میں وزیرستان کے اٹھ لوگوں کو محض اس لیے شہید کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایک دو سال پہلے بھی ایک افغانی فوجی نے اسی طرح پاکستانی پشتونوں کو قتل کر دیا تھا جو مزدوری کرنے افغانستان گئے تھے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر شیر کر دی تھی۔
بقول حسن خان صاحب کے" کسی کا صرف پاکستانی پشتون ہونا افغان فوج کو اس کے قتل کا لائسنس دے دیتا ہے" ۔۔
یہ ہے افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردیوں اور دراندازیوں کی تاریخ جنہوں نے نہ کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دیا نہ پشتونوں کو۔
اگر پی ٹی ایم کو افغانستان کی یہ دراندازیاں نظر نہیں آرہیں تو مان لیجیے کہ پی ٹی ایم درحقیقت سرشتہ گروپ، پشتون زلمی اور ٹی ٹی پی کی تازہ قسط ہے۔
اس پوسٹ کو اپنی ٹائم لائن، پیجز اور گروپس میں زیادہ سے زیادہ پھلائیں۔ اور
افغانیوں، اچکزئیوں اور پی ٹی ایم والوں سےسوال کریں۔

BIGGEST DOCTOR OF THE WORLD "OLD FRIENDS"



*دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر*
*جاوید چودھری کا "بچپن کے دوستوں" کے متعلق غیر سیاسی کالم*
”میں بے عزتی کو ترسا ہوا تھا‘ میں ایک دن اپنے پرانے محلے میں چلا گیا‘ میں گلی سے گزر رہا تھا‘مجھے اچانک آواز آئی‘ اوئے ظفری کتھے منہ چک کے پھر ریاں‘ بس یہ آواز میرے کانوں میں پڑنے کی دیر تھی‘ میری ساری ٹینشن‘ اینگزائٹی‘ بلڈ پریشر اور شوگر ٹھیک ہو گئی‘ میں خلا سے زمین پر آ گیا“۔ وہ مسکرا رہا تھا‘ مجھے وہ بڑے عرصے بعد مطمئن‘ مسرور اور صحت مند دکھائی دیا‘ میں اسے دس سال سے جانتا ہوں‘ یہ سیلف میڈ ارب پتی ہے۔
میڈیکل سٹور چلاتا تھا‘ پچیس سال پہلے کف سیرپ کی ایک دیوالیہ کمپنی خریدی اور کف سیرپ بنانا شروع کر دیا‘ ملک میں اس وقت ڈسٹ الرجی پھیلی ہوئی تھی‘ لوگوں نے اس کا کف سیرپ استعمال کرنا شروع کیا اور پھر معجزہ ہو گیا‘  یہ لاکھ پتی بنا‘ پھر کروڑ پتی ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گیا‘ دکان فارما سوٹیکل کمپنی میں تبدیل ہو گئی اور یہ دوائیں ایکسپورٹ کرنے لگا۔میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو دنیا کی خطرناک ترین چیز کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ دولت دنیا کی خطرناک ترین چیز ہے‘ دنیا میں آج تک ایٹم بم سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے لوگ روزانہ دولت کے ہاتھوں مرتے ہیں‘ انسان کبھی بھوک سے نہیں مرتا‘ کھانے سے مرتا ہے‘ انسان کو غربت نہیں مارتی‘ امارت مارتی ہے اور انسان کبھی ناکام ہو کر بیمار نہیں ہوتا یہ کامیاب ہو کر علیل ہوتا ہے‘ دولت کبھی کسی کے پاس نہیں ٹھہرتی‘ ہم سب چیک بک ہوتے ہیں‘ دولت آتی ہے اور ہم سے ہو کر آگے نکل جاتی ہے‘ ہم کریڈٹ کارڈ ہیں‘ ہم سب کی ایک کریڈٹ ویلیو ہوتی ہے‘ یہ ویلیو خرچ ہو جاتی ہے اور پھر ہم بلاک ہو جاتے ہیں‘ ہم دولت کماتے ہیں اور یہ چند دن‘ چند ماہ بعد ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے لیکن یہ جاتے جاتے ہمارے چار اثاثے ساتھ لے جاتی ہے‘ یہ ہماری صحت کھا جاتی ہے‘ میں نے آج تک زندگی میں کسی امیر شخص کو صحت مند نہیں دیکھا‘ انسان کی کریڈٹ ویلیو جتنی بڑھتی جاتی ہے یہ اتنا ہی بیمار ہوتا چلا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے دولت مند پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے درمیان مر جاتے ہیں یا پھر آخری عمر ہسپتالوں اور کلینکس میں گزارتے ہیں‘دوسرا دولت ہمارے تعلقات کو کھا جاتی ہے‘ ہم لوگ بیٹا‘ باپ‘ بھائی‘ بہن اور بیوی نہیں رہتے‘ ہم اکیلے رہ جاتے ہیں‘ آپ کبھی غریب بھائی کو غریب بہن کے خلاف مقدمہ کرتے نہیں دیکھیں گے لیکن عدالتوں میں آپ کو امیر بچوں‘ باپ‘ بھائیوں اور بہنوں کے ہزاروں مقدمے ملیں گے‘زندگی میں غریب رشتے دار ناراض ہو کر راضی ہو جاتے ہیں مگر امیر رشتے داروں کی لڑائیاں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں چناں چہ دولت آپ کے رشتے کھا جاتی ہے۔
دولت کا تیسرا وار اخلاقیات پر ہوتا ہے‘ آپ کو میلوں تک کوئی امیر شخص بااصول یا با اخلاق نہیں ملے گا‘ جھوٹ ہو یا مجرے ہوں آپ کو ان کے دائیں بائیں امیر لوگ نظر آئیں گے لہٰذا دولت آپ کی اخلاقیات نگل جاتی ہے اور چوتھا اثاثہ سکون ہے‘ دولت آپ کا سکون چھین لیتی ہے‘ آپ نے زندگی میں بہت کم امیر لوگ مطمئن اور پرسکون دیکھے ہوں گے‘ یہ لوگ ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں اور انہیں نیند لانے کیلئے گولیاں کھانی پڑتی ہیں اور میرے اس دوست کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
یہ پہلے اپنی صحت سے محروم ہوا‘ پھر یہ فیملی میں اکیلا ہوا‘ پھر یہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا اور آخر میں یہ بے سکونی کے بحر بیکراں میں جا گرا‘ یہ مردم بیزار ہو گیا‘ یہ لوگوں کو دیکھتا تھا اور برا سا منہ بنا کر چہرہ دوسری طرف پھیر لیتا تھا‘ یہ زندگی سے بری طرح تنگ آ چکا تھا‘ یہ عمرے بھی کر چکا تھا‘ دنیا بھر کی نعمتیں بھی اپنے اردگرد جمع کر لی تھیں اور اس نے ناچ کود اور لیٹ کر بھی دیکھ لیا تھا لیکن اسے سکون نصیب نہیں ہوا تھا مگر پھر اس میں ایک عجیب تبدیلی آئی‘ یہ زندگی کی طرف واپس لوٹ گیا‘ یہ مطمئن بھی ہو گیا‘ مسرور بھی اور صحت مند بھی اور میں اس سے اس کایا کلپ کی داستان سن رہا تھا۔
وہ بولا ”میں جی ٹی روڈ پر سفر کر رہا تھا‘ میں اپنے آبائی قصبے کے قریب سے گزرا اور پھر میں نے بریک لگا دی‘ میں اپنے پرانے محلے میں چلا گیا‘ میں جوں ہی اپنی گلی میں داخل ہوا‘ کسی کونے سے آواز آئی اوئے ظفری‘ کتھے منہ چک کے پھر ریاں‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر میری ساری بیماریاں ختم ہو گئیں‘ وہ میرے بچپن کا دوست مجید تھا‘ ہم اسے مجیدا کہتے تھے‘ اس کا والد بازار میں دہی بھلے کی ریڑھی لگاتا تھا‘ وہ بچپن ہی میں والد کے ساتھ کام پر لگ گیا تھا۔
وہ اپنے گھر سے دہی بھلے چوری کر کے لاتا تھا اور ہم گراؤنڈ میں بیٹھ کر کھاتے تھے‘ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کشتی بھی لڑتے تھے‘ بھونڈوں (بھڑوں) کے ساتھ دھاگا باندھ کر بھی اڑاتے تھے اور ہم اتوار کے اتوار گلی ڈنڈا بھی کھیلتے تھے‘ وہ مجھے ہمیشہ ظفری کہتا تھا‘ میں ترقی کر گیا‘ میں پہلے بین الاقوامی شہری بنا اور پھر ظفری سے سید ظفرالحق بن گیا‘ لوگ مجھے شاہ صاحب یا ظفر صاحب کہتے تھے‘ دفتر میں میرا نام ایس زیڈ تھا‘ میں نے 40 سال سے کسی کے منہ سے ظفری نہیں سنا تھا لیکن مجیدے نے جوں ہی مجھے ظفری کہا‘ میری خوشیاں مجھے واپس مل گئیں‘ میں ٹھیک ہو گیا۔
مجھے اس وقت محسوس ہوا میں بے عزتی اور بے تکلفی کو ترسا ہوا تھا‘ میری زندگی سے بے تکلف دوست نکل گئے تھے‘ میرے پاس صرف مطلبی رشتے دار‘ مراعات اور تنخواہوں کے پیچھے بھاگتے ملازمین‘ بزنس فرینڈز اور میری موت کے منتظر بچے اور حریص داماد تھے‘ یہ سارے لوگ میرے تھے لیکن یہ میرے نہیں تھے‘ میرے لوگ مجیدے تھے‘ میں مجیدے کو ترس رہا تھا‘ میں اوئے ظفری سننا چاہتا تھا اور یہ میرا اصل مرض تھا“ وہ رکا اور ذرا سا سوچ کر بولا ”جاوید صاحب انسان کا سب سے بڑا المیہ ان لوگوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے جن کی نیت آپ پر کھل چکی ہوتی ہے۔
آپ جان چکے ہوتے ہیں آپ کے سامنے کھڑے ہو کر جو شخص سر‘ سر کہہ رہا ہے یہ روز آپ کو میٹھی چھری سے ذبح کرتا ہے لیکن آپ جانتے بوجھتے اس سے جان نہیں چھڑا سکتے‘ آپ یہ بھی جانتے ہیں آپ کی بیوی اور اس کے خاندان کو آپ سے نہیں آپ کی دولت سے غرض ہے اور آپ کے بچے آپ کو والد نہیں کریڈٹ کارڈ سمجھتے ہیں مگر آپ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ دوستوں‘ رشتے داروں اور عزیزوں کی نیتوں سے بھی واقف ہوتے ہیں مگر آپ ان کے منہ پر انہیں برا نہیں کہہ سکتے‘ یہ تکلیف آپ کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے‘ یہ آپ کو بیمار کر دیتی ہے‘ میں بھی بیمار تھا‘ میں چالیس سال سے خلوص سے بھری آواز سننے کیلئے ترس رہا تھا اور پھر مجھے وہ آواز مل گئی۔
مجیدا اپنی دکان سے نیچے آیا‘ بھاگ کر اندر سے کرسی کھینچ کر لایا اور کرسی تھڑے پر ٹکا کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا‘ میں نے کرسی کو سائڈ پر کیا اور اس کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ گیا‘ وہ دانت نکال کر مجھے دیکھ رہا تھا‘ ہاتھ مل رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا‘ اس کی آواز سن کر پورا محلہ اکٹھا ہو گیا‘ لوگ ظفری آیا‘ ظفری آیا کے نعرے لگا رہے تھے اور میرے اردگرد جمع ہو رہے تھے‘ میں حیرت سے انہیں دیکھتا تھا اور انہیں پہچاننے کی کوشش کرتا تھا‘ یہ سب میرے بچپن کے ساتھی تھے۔
میں کسی کے ساتھ پتنگیں اڑایا کرتا تھا‘ کسی کے ساتھ بنٹے کھیلتا تھا اور کسی کے ساتھ مل کر ریڑھیوں سے آم چوری کرتا تھااور یہ میرے ساتھ سکول سے بھی بھاگتے تھے‘ ان میں سے کوئی شخص سید ظفر الحق کو نہیں جانتا تھا‘ یہ صرف اور صرف ظفری سے واقف تھے اور میں اس وقت ظفری تھا‘ یہ بوڑھے ہو چکے تھے‘ غربت نے کسی کا کُب نکال دیا تھا‘ کوئی کم سننے لگا تھا‘ کسی کے دانت جھڑ چکے تھے اور کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھااور یہ سب گنجے بھی ہو چکے تھے مگر یہ اس کے باوجود مطمئن اور خوش تھے۔
میں ان سب کے مقابلے میں صحت مند تھا‘ میرے سر پر بال بھی تھے‘ میری آنکھیں‘ ناک‘ کان اور دانت بھی سلامت تھے اور میں نے اچھے کپڑے بھی پہن رکھے تھے لیکن یہ سب ظاہری تھا‘ میں اندر سے بیمار تھا‘ میں اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا جبکہ یہ باہر سے بے رنگ مگر اندر سے بھرے ہوئے تھے‘ میں نے اس وقت مجیدے کے تھڑے پر بیٹھے بیٹھے محسوس کیا دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر‘ سب سے مہنگی دوا پرانے دوست ہوتے ہیں‘ انسان کو بچپن کے دوست‘ بگڑے ہوئے نام اور تکلف سے بے پروا مخلص آوازیں چاہیے ہوتی ہیں۔
یہ مل جائیں تو انسان بستر مرگ سے بھی اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کر دیتا ہے اور اگر یہ نہ ملیں تو انسان خواہ بل گیٹس یا سٹیو جابز ہی کیوں نہ ہو یہ سسک سسک کر مر جاتا ہے‘ اس کے پلے صرف اچھا ہسپتال‘ مہنگے ڈاکٹرز اور امیر جنازہ ہوتا ہے اور بس‘ دنیا میں عمر بڑھانے کی بہترین دوا دوست ہوتے ہیں‘ آپ اگر ایک بار ظفری بن گئے تو پھر آپ کے دوست آپ کو ہمیشہ ظفری بنائے رکھیں گے‘ یہ آپ کو سید ظفر الحق نہیں بننے دیں گے‘ یہ آپ کو کبھی بچپن سے باہر نہیں نکلنے دیں گے آپ خواہ صدر پاکستان ہی کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ دوستوں کیلئے ظفری ہی رہیں گے۔
مجھے اس تھڑے پر بیٹھے بیٹھے محسوس ہوا ہمارے ملازمین کیلئے ہمارے اکاؤنٹس اہم ہوتے ہیں‘ ہمارے بچوں کیلئے ہماری وصیت اہم ہوتی ہے اورہمارے رشتے داروں کیلئے ہمارا اثرورسوخ‘ ہمارا دب دبہ اورہماری حیثیت اہم ہوتی ہے لیکن صرف ہمارے بچپن کے دوست وہ لوگ ہوتے ہیں جن کیلئے ہماری خیریت اورہم اہم ہوتے ہیں چناں چہ آپ بچپن کے دوستوں سے ملتے رہا کریں‘ آپ کبھی بیمار نہیں ہوں گے“ وہ مسکرایا اور بولا ”آپ بھی پلیز مجھے ظفری کہا کریں‘ میں سید ظفر الحق بن بن کر تھک گیا ہوں“۔
تحریر : جاوید چوہدری

شادی سے پہلے اپنے منگیتر سے بات کر سکتے ہیں........... ؟؟؟؟؟




👈یہ پوسٹ ان لوگوں کے لیئے ہے جن کا سوال کہ شادی سے پہلے اپنے منگیتر سے بات کر سکتے ہیں........... ؟؟؟؟؟
😢😢منگنی اور ہلاکت😢😢*
اس شخص کو اپنی غلطیوں کا احساس پہلی رات ہی ہوجائے گا*
جب وہ کمرے میں جائے گا تو اسکی بیوی اس سے بلکل نہیں شرمائے گی، اس شوہر کو بیوی کی گھبراہٹ کا قطعی احساس نہیں ہوگا، دونوں خوش ضرور ہیں لیکن وہ خوشی جس سے انسان پھولے نہین سماتا وہ اس خوشی سے محروم ہوچکے ہیں، یہی نہیں آنے والی زندگی میں مذید خزاں کے موسم آنے ہیں کہ شوہر محسوس کرے گا بیوی میری عزت نہیں کرتی میرا کہنا نہیں مانتی یہ صرف اپنی ہی چلاتی ہے۔

 دوسری طرف بیوی نے بھی برابر کا جواب رکھنا ہے کہ آپ شادی کے بعد بلکل بدل گئے  ہو میں جس شخص سے باتیں کیا کرتی تھی وہ کوئی اور تھا جس سے شادی ہوئی وہ کوئی اور ہے، کہاں گئے آپ کے سارے وعدے ساری قسمیں، وہاں شوہر مردانگی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ شادی کے بعد ذمہ داریاں آگئی ہیں تمام معاملات کو دیکھنا پڑتا ہے اور آیئں بایئن شایئں روزانہ نہین تو ہفتے مین دو سے تین بار کی کہانی ضرور ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو منگنی کے بعد مسلسل اپنی منگیتر کے ساتھ رابطے مین رہتے تھے جنہوں نے اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے فرمان کو سن کر عمل کرنے سے انکار کیا اور نا انہوں نے دن دیکھا نا رات دیکھی کہ مسلسل منگیتر سے رابطے قائم ہیں، تحفے تحائف کی لین اعلی سطح پر ہے کہ منگیتر کو مہنگا موبائل گفٹ کیا جا رہا ہے، لڑکی نے لڑکے کو کڑھائی والا سوٹ ہدیہ کیا ہے کہ یہ سوٹ تم پر زیادہ اچھا لگے گا بعض لوگ تو ملاقات کرنے جیسی سنگین غلطیاں کر بیٹھتے ہیں اور کچھ لوگ تو حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔

 کہ نکاح سے پہلے ہی منگیتر کو ناپاک کردیتے ہیں۔ یقین کریں انکی ازدواجی زندگی مین کوئ برکت نہین ہونے والی کیوں کہ انہوں نے شادی سے پہلے ہی منگیتر سے رابطے قائم کرکے شرم و حیا کو ایک طرف پھینک دیا، سب جانتے ہوئے نکاح کی برکتوں سے منہ پھیر لیا، شادی سے پہلے منگیتر سے رابطے نے  نا صرف ان کی ازدواجی زندگی کا سکون چھینا بلکہ انہین گناہ کبیرہ کا مرتکب بھی ٹھہرا دیا کہ شہزادی ابھی شہزادے کے نکاح مین نہیں آئ اور یہاں دونوں کی گفتگو ہے جو ختم ہو کر نہیں دے رہی۔
لوگ کہتے ہیں آپ کی باتیں درست ہیں لیکن زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، میرے دوست زمانے کے ساتھ چلنے کا ہی تو نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گھروں کے گھر اجڑ چکے ہیں، ہر دوسرے گھر میں میاں بیوے کے جھگڑے، ہر تیسرے گھر میں طلاق یافتہ بیٹھی ہے، لہذا اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے طریقوں میں ہی ہماری بھلائ ہے۔
شادی سے پہلے منگیتر سے بات کرنے کے بے حد نقصانات ہیں کہ یہی میاں بیوی ایک دوسرے کے دل مین اپنی عزت کھو دیتے ہیں، شادی سے پہلے ہی ایک دوسرے سے مکمل کھل جاتے ہین پھر بیوی کی نظر مین وہ شوہر نہین رہتا اور شوہر کی نظر مین وہ بیوی نہین رہتی۔ تمہین کیا لگتا ہے منگیتر سے رابطہ کرکے جو تم گناہ عظیم کر رہے ہو یہ جانتے ہوۓ کہ وہ غیر محرم ہے اللہ تمہیں چھوڑ دے گا ؟ نہین اس کا سیدھا اثر تمہاری ازدواجی زندگی پر ہوگا، اولاد پر اثر ہوگا مذید گناہوں کی سزا کے حقدار الگ ٹھہرو گے۔
منگنی ہوجانے کے بعد نکاح کے بعد ہی بیوی کو دیکھنا بیوی سے بات کرنا بیوی سے ملاقات کرنا ہی درحقیقت غیرت مندی کا مظاہرہ ہے
، یہی لوگ کامیاب اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارتے ہیں کہ کہ دونوں منگیتر ہمکلام نا ہوئے جانتے ہوئے کہ غیر محرم ہیں انہوں نے اللہ کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے فرمان کو اولین ترجیح دی اب انکی زندگی خوب سے خوب تر ہونے کو ہے کہ انکی زندگی مین بے شمار برکتیں ہونگی، دونوں میاں بیوی اللہ کی رحمت کے سائے مین آگئے ہیں، اب ان دونوں کے معاملات اللہ خود دیکھتا ہے۔ بیشک جو اللہ کے احکامات پر عمل کرتا ہے اللہ دنیا و آخرت میں کامیابی دیتا ہے
 .

WHICH SUITABLE TREES TO GROW IN PAKISTAN


میں درخت لگانا چاہتا ہوں مگر کونسا درخت لگاؤں؟


پاکستان میں حالیہ گرمی کی شدت کی وجہ سے پاکستان کا ایک بڑے طبقے نے درختوں کی اہمیت کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے.

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی درخت لگانے کے حوالے سے ایک تحریک سی چل نکلی ہے. اور درخت لگانے کے حوالے سے طرح طرح کے نعروں سے فیس بک کی دیواریں سجی ہوئی ہیں.
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص درخت لگانا چاہتا ہے تو وہ کونسا درخت لگائے؟
. سفیدے کے بارے میں بھی لوگوں کے ذہن میں بہت سے سوالات ہیں.

پاکستان کی آب وہوا کے لئے موزوں درخت کون کون سے ہیں پاکستان کے مختلف خطوں کے لئے موزوں درختوں کی الگ الگ تفصیل بیان کی گئی ہے.

جنوبی پنجاب کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

جنوبی پنجاب کی آب و ہوا زیادہ تر خشک ہے اس لئے یہاں خشک آب و ہوا کو برداشت کرنے والے درخت لگائے جانے چاہئیں۔ خشکی پسند اور خشک سالی برداشت کرنے والے درختوں میں‌ بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ اور فراش کے درخت قابل ذکر ہیں۔اسکےساتھ آم کا درخت بھی جنوبی پنجاب کی آب وہوا کےلئےبہت موزوں ہے۔

وسطی پنجاب کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

وسطی پنجاب میں نہری علاقے زیادہ ہیں اس میں املتاس، شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکاین، ارجن اور لسوڑا لگایاجانا چاہئے۔

شمالی پنجاب کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کیل، اخروٹ، بادام، دیودار، اوک کے درخت لگائے جائیں ۔کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں انکی جڑیں بڑی نہ ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال نہ کرتے ہوں ۔
سفیدہ صرف وہاں لگائیں جہاں زمین خراب ہو یہ سیم و تھور ختم کرسکتاہے سفیدہ ایک دن میں 25 لیٹرپانی پیتا ہے۔لہذا جہاں زیرزمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگائیں ۔

اسلام آباد اور سطح مرتفع پوٹھوہار کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

خطہ پوٹھوہار کے لئے موزوں درخت دلو؛ پاپولر، کچنار، بیری اور چنار ہیں ۔اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجیکا سبب ہے اس کو ختم کرنا چاہیے۔خطے میں اس جگہ کے مقامی درخت لگائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔زیتون کا درخت بھی یہاں لگایا جا سکتا ہے۔

سندھ کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا چاہیے۔
کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلمہور،جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگاناچاہیے۔
کراچی میں ایک بڑے پیمانے پر کونو کارپس کے درخت لگائے گئے ہیں۔ یہ درخت کراچی کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔
یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

بلوچستان کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

زیارت میں صنوبر کے درخت لگائے جانے چاہئیں ۔زیارت میں صنوبر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے۔زیارت کے علاوہ دیگر بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون، کرک ،پھلائی، کیر، بڑ، چلغوزہ، پائن، اولیو اور ایکیکا لگایا جانا چاہئیے۔

کے پی کے اور شمالی علاقہ جات کے لئے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟

کے پی کے میں شیشم،دیودار، پاپولر،کیکر،ملبری،چنار اور پائن ٹری لگایا جائے.

درخت لگانے کا بہترین وقت کونسا ہے؟

پاکستان میں درخت لگانے کا بہترین وقت فروری مارچ اور اگست ستمبر کے مہینے ہیں.

درخت کیسے لگائیں اور ان کی حفاظت کیسے کریں؟

اگر آپ سکول کالج یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگے گئیں اور ان کا فاصلہ دس سے پندرہ فٹ ہونا چاہیے۔گھر میں لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں ۔


آپ بنا مالی کے بھی درخت لگا سکتے ہیں. نرسری سے پودا لائیں ۔ زمین میں ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔نرسری سے بھل ( اورگینک ریت مٹی سے بنی) لائیں گڑھے میں ڈالیں، پودا اگر کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں ۔پودا ہمیشہ صبح یا شام کے وقت لگائیں۔دوپہرمیں نہ لگائیں اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں ۔گڑھا نیچا رکھیں تاکہ وہ پانی سے بھر جائے ۔گرمیوں میں ایک دن چھوڑ کر جبکہ سردیوں میں ہفتے میں دو بار پانی دیتے جائیں۔

پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اسکو کھرپے سے نکال دیں۔اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا یوریا فاسفورس والی کھاد اس میں ڈالیں لیکن بہت زیادہ نہیں ڈالنی. زیادہ کھاد سے بھی پودا سڑ سکتا ہے ۔بہت سے درخت جلد بڑے ہوجاتے ہیں کچھ کو بہت وقت لگتا ہے۔سفیدہ پاپولر سنبل شیشم جلدی بڑے ہوجاتے ہیں جبکہ دیودار اور دیگر پہاڑی درخت دیر سے بڑے ہوتے ہیں۔ گھروں میں کوشش کریں شہتوت،جامن، سہانجنا،املتاس، بکائن یا نیم لگائیں ۔

تحریر و تحقیق: پروفیسرڈاکٹر محمد طاہر صدیقی، ماہر جنگلات، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد


June 24, 2019

MARRIED LIFE & NAKAIL


#نکیل

اس کو عبید کے لئے لڑکی کی تلاش تھی ، برادری میں وہ اس لئے نہیں دیکھ رھی تھی کہ بیٹا باپ کی طرح قسائی ٹائپ تھا ،، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا ، اگر آپ نے سالن پہلے رکھ دیا اور روٹی میں دیر ھو گئ تو صاحب سالن کی پلیٹ دیوار پر مار دیتے تھے ، روٹی پہلے آ گئ مگر سالن میں دیر ھو گئ تو نواب صاحب روٹی اٹھا کر کتے کے آگے رکھ آتے تھے ، چائے ڈیمانڈ سے کم گرم ھوئی تو جب تک وہ پیالی توڑ نہ دیں غصہ ٹھنڈا نہیں ھوتا تھا۔
پوت کی یہ ادائیں دیکھ کر اس کو یقین تھا کہ کوئی لڑکی اس کے گھر میں چار دن نہیں نکالے گی لہذا برادری میں دشمنی بنانے کی بجائے غریبوں کی دو چار لڑکیاں اگر اجاڑ بھی دے گا تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ھو گا نیز اس دوران کچھ نہ کچھ تو سدھر ھی جائے گا۔
آخر ایک سفید پوش گھرانے کی قربانی کی بکری ڈھونڈ ھی لی گئی۔ چونکہ لڑکے کا گھرانا پیسے والا بھی تھا اور بظاھر مہذب بھی نظر آتا تھا لہذا لڑکی والوں نے بھی زیادہ تحقیق و تفتیش کرنے کی بجائے جھٹ سے ہاں کر دی ، لڑکی شکل کی خوبصورت تھی موٹی آنکھیں ،گورا رنگ اور ستواں ناک جس کو باقاعدہ چھیدا گیا تھا سب کچھ مل ملا کر لڑکی کے لئے اس گھر میں گنجائش بناتا تھا۔
کچھ عرصے بعد شادی ھو گئی ، شادی دھوم دھام کی بجائے سادگی سے کی گئی تھی کیونکہ خود لڑکے والے ھی اس کو لو پروفائل پہ رکھنا چاھتے تھے تا کہ اگر طلاق بھی ھو تو اتنا شہرہ نہ ھو۔ لڑکی والے ویسے بھی غریب تھے وہ اس بات کو لڑکے والوں کی دینداری سمجھ کر ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے لئے گڑھا کھودا جا رھا ہے ـ
رخصتی کے بعد لڑکی کو جب حجلہ عروسی میں بھیجا گیا تو ماں کا دل دھک دھک کر رھا تھا کہ کہیں سالن کی پلیٹ کر طرح لڑکی پہلی رات ھی باھر نہ پھینک دی جائے مگر سیانے کہتے ہیں کہ جس کا کوئی نہیں ھوتا اس کا خدا ھوتا ھے ، اور بندے کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان جوتا ہے وہ جدھر چاھے پلٹ دیتا ھے۔
عبید نے جونہی گھونگھٹ اٹھایا تو اس نے ایک سادہ سی نتھ کو لڑکی کی ناک سے کان کی طرف جاتے دیکھا۔ پتہ نہیں اس میں کیا راز تھا کہ عبید کی نظر لڑکی کی ناک پر جم کر رہ گئی گویا کسی نے اس کو ہپناٹائز کر کے رکھ دیا ھو ، اس کے اندر بےبسی کی اس ایک رمز سے کئ شرحیں لکھی جا رھی تھیں۔ یہ کون ھے ، کیوں اس نے اپنی ھستی کو اس نتھ میں پرو کر اپنا آپ میرے حوالے کر دیا ھے۔ یہ بےبسی کی کونسی قسم ھے کہ اپنی نکیل خود کسی کے ہاتھ میں پکڑا کر اپنی خوشی سے بےبس ھو جاؤ۔۔۔۔۔کیا میں اس بےبسی کو سنبھال بھی سکوں گا؟؟ اس کی قدر کر سکوں گا ؟؟؟؟ دلہن خاموش بیٹھی تھی مگر ٹکٹکی لگائے عبید سے اس کو ڈر لگنے لگا تھا۔ رات گزری تو اگلی صبح حجلہ عروسی سے ایک نیا عبید پیدا ھوا۔
وہ بہنوں سے ناشتہ بنوا کر خود اٹھا کر دلہن کے پاس لایا۔ وہ اس کو یوں لقمے توڑ توڑ کر دے رھا تھا جیسے وہ کوئی چھوٹی سے بچی ھو۔

ماں اور بہنیں ہکا بکا رہ گئیں۔ وہ ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھ رھی تھیں کہ اس کو کیا ھو گیا ھے ؟ ھر آنے والا دن ان کی محبت میں اضافے کی نوید لاتا۔
آخر ایک دن ماں نے عبید کو اپنے کمرے میں بلا لیا ،، ماں کو شک تھا کہ لڑکی نے کوئی تعویذ کر دیا ھے اور لڑکا ہاتھ سے نکلا جا رھے اور بس دلہن کا طواف ھی کرتا رھتا ھے اس کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنے سلوک میں اعتدال رکھے وغیرہ وغیرہ۔
ماں نے پوچھا "عبید دلہن کیسی ھے؟"
"ٹھیک ھے مما ، بہت اچھی ھے بلکہ بہت ھی اچھی ، شاید اس کو اللہ نے میرے لئے بنایا ھے۔" عبید ماں کی طرف دیکھے بغیر نارمل بات کر رھا تھا جبکہ دوسری جانب ماں کی آنکھیں دائرے میں گھومنا شروع ھو گئ تھی۔ وہ بھڑک کر بولیں "میں نے تمہیں بیوی کا نوری نامہ سنانے کے لئے نہیں بلایا بلکہ یہ سمجھانے کے لئے بلایا ھے کہ وہ تیری بیوی ھے اور تو اس کا شوھر ھے ، اپنے وقار کا خیال رکھ اور مرد بن کر رہ ، جس طرح تو ماں اور بہنوں میں مرد بن کر رہ رھا تھا اور سب کا خون خشک کر کے رکھا ھوا تھا ، اب اس نے تمہیں کیا کھلا دیا ھے جو ادب و آداب کے زمزمے بہنے لگے ہیں تجھ میں؟ پچھلے تین ہفتے سے ایک برتن نہیں ٹوٹا ، نہ کوئی پلیٹ اڑتی ھوئی صحن میں جا کر گری ، آخر میری تربیت میں وہ کونسی کمی تھی جو اس لڑکی نے پوری کر کے تمہیں اشفاق احمد بنا دیا ھے ؟"
عبید چونک گیا "مما کیا ھو گیا ھے آپ کو ؟ اس بیچاری نے تو کچھ بھی نہیں کہا ، مما پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے ، میں جب اس کی ناک کی نکیل کو دیکھتا ھوں تو لگتا ھے ایک معصوم سی بچھڑی ھے جس نے نہایت تابعداری کے ساتھ اپنی نکیل میرے ہاتھ میں پکڑا دی ھے ، مما میں نے بےبسی کا یہ حقیقی منظر پہلی دفعہ دیکھا ھے ، اس کے بعد میں اب کیا کر سکتا ھوں۔۔۔۔۔۔مما میں نے بہت پہلے جمعے کے خطبے میں ایک حدیث سنی تھی کہ کریم جب قابو پا لیتا ھے تو معاف کر دیتا ھے ۔ مما اس نے پہلے ھی دن اپنی نکیل میرے ہاتھ میں دے دی تھی ، خود کو میرے قابو میں دے دیا تھا ، بس وہ حدیث رہ رہ کے مجھے یاد آ رھی تھی کہ اب اللہ نے تجھے اس پر قابو دے دیا ھے تو اس کو معاف کرتے ھی رھنا ھے ،، یہ کہہ کر عبید آہستہ سے اٹھ کر باھر نکل آیا جبکہ ماں سکتے میں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
سیمیں کو پتہ بھی نہیں چلا تھا کہ اس کی سہیلی کے دیئے گئے اس تحفے نے کتنا بڑا دیو اس کے قابو میں کر دیا تھا جس کو پیدا کرنے والی بھی سنبھالنے سے عاجز تھی ـ

CANCER CURE BY HAKEEM SB. 40 DAYS حکیم صاحب کینسر کا علاج 40 دن میں کرتے ہیں۔


کینسر کا علاج

تقریباً 5 ماہ پہلے میرے چچا  کے پیٹ میں ایک معمولی زخم کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر کو کچھ شک ہوا اور کوئ خاص ٹسٹ تجویز کیا کچھ دن بعد ٹسٹ کا نتیجہ آیا تو گھر میں سب کے اوسان خطا ہو گئے۔ جی ہاں چچا جان کو کینسر جیسے موذی مرض لاحق ہو گیا تھا وہ بھی تیسرے درجے کا۔ بہرحال علاج کیلئے ہم شوکت خانم پشاور گئے، ٹسٹ کا رزلٹ دیکھ کر وہاں کے ڈاکٹروں نے علاج سے معذرت کر لی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ہماری پالیسی ہے کہ کینسر کے اس سٹیج میں ہم 40 سال سے کم عمر مریض کو داخلہ دیتے ہیں وگرنہ نہیں۔ ہم بھی کچھ کہے بنا وہاں سے نکل آئے کیونکہ چچا جان کی عمر ساٹھ کی دہائی کراس کر چکی تھی اور خیر سے لائف ٹائم شناختی کارڈ بھی بنا چکے ہیں۔ خیر گھر پر تو نہیں بیٹھ سکتے تھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔پشاور میں کینسر کے سرکاری ہسپتال ارنم سے علاج شروع ہوا۔ اس دن یہ عقدہ بھی کھلا کہ گورنمنٹ واقعی ماں کے مانند ہوتی ہے بچہ کتنا ہی بگڑ جائے ماں  ہی قبول  کرتی ہے یہاں بھی مریض اور مرض کتنا ہی بگڑ جائے نہ نہیں ہوتی ۔ سو ہمیں بھی داخلہ مل گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اب سنیں کام کی بات جب علاج کا کچھ اثر نہ ہوا تو کچھ مہربان دوستوں نے دور پہاڑوں میں مقیم ایک حکیم کا بتایا جو کینسر کے مرض میں بے حد مشہور ہے پر جگہ تھی کافی دور۔ مہینہ رمضان کا چل رہا تھا ایک دن سحری کے فورا بعد اللہ کا نام لیکر ایک دوست کو ساتھ بٹھایا اور موٹر سائیکل پر کک ماری اور جب 11 بج رہے تھے تو ہم مردان سے چل کر شانگلہ مارتونگ میں واقع حکیم صاحب کے مطب میں پہنچ گئے۔ وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہم کہ کتنے دور دور سے لوگ یہاں آئے ہیں علاج کیلئے اور اکثر نے تو رات بھی یہاں گذاری تھی کیونکہ مریضوں کے لئے دو بہترین قسم کے ہوٹل بھی اہل علاقہ نے بنائے ہیں جن میں انتہائ مناسب ریٹ پر مریضوں کو کمرے دستیاب ہوتے ہیں بہرحال ہم اپنی باری پر حکیم صاحب کے پاس گئے اور انکو مریض کے بارے میں بتایا انہوں نے ایک چھوٹی سی پڑی (الکہ پہ اردو کے ہم ورتہ پوڑے وئ کنہ ھاھا) پکڑائی اور کہا یہ سات دن کی دوائی ہے پرہیز کے ساتھ مریض کو دوائی دینی ہے اور سات دن کے بعد اگر آپ نے یا مریض نے کچھ بہتری محسوس کی تو دوبارہ آکر مزید چالیس دن کی دوا لیتے جائیے بصورت دیگر دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہم نے دریافت کیا کہ بہتری سے مطلب؟ فرمانے لگے یا تو ٹسٹ سے فرق آیا ہو گا اور یا مریض کی تکلیف وغیرہ میں کمی آئی ہو گی۔ ٹھیک ہے جی کہ کر ہم نے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے منع کیا اور فرمایا ہمارا اصول ہے پہلی بار پیسے نہیں لیتے اگر آپ کے مریض کو فائدہ ہو تو آکر پوری دوائی قیمت کے ساتھ لے جاؤ نہیں تو یہ ہماری طرف سے ہدیہ۔۔ قصہ مختصر رات وہاں مقامی ساتھیوں کے ساتھ گذار کر صبح ہم واپس آئے.

 اور چچا جان کو دوا شروع کرائی چوتھے دن ہی چچا جان نے واضح فرق محسوس کیا جسکا مطلب تھا کہ اب ہمیں پھر حکیم صاحب کے پاس پہنچنا پڑے گا یعنی وہ شاعر والی بات ہمیں بھی پیش آئی جس میں وہ بے چارہ ایک دریا عبور کرنے کے بعد دوسرے دریا میں پھر گر جاتا ہے بہرحال ایک بار پھر ہم مارتونگ پہنچ گئے (یہ ہے تو شانگلہ میں لیکن آپ اگر مردان والی سائد سے آرہے ہیں تو پھر بونیر کا راستہ آسان رہے گا ) اور بقایا چالیس دنوں کی دوا لیکر صرف چار ہزار فیس حکیم صاحب کو پکڑائی اور چلتے بنے اب صورتحال یہ ہے کہ تین دن پہلے چچا جان کا ڈاکٹر نے دوبارہ ٹسٹ کرایا اور نتیجہ بالکل صاف۔ جی ہاں کینسر کا نام و نشان نہیں۔

 زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے موت کا وقت اٹل ہے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا لیکن میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے جاننے والوں میں سے خدا ناخواستہ کوئی اس موذی مرض میں مبتلا ہو تو اسے ضرور اس حکیم کا مشورہ دے دیں۔ کیا پتہ آپ کی وجہ سے کسی کے چند دن آرام سے گذر جائیں۔ --
-------Address ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یہ نمبر  03463722885حکیم صاحب کے بھائ کے پاس ہوتا ہے۔ ایڈریس تو انتہائی آسان ہے ضلع شانگلہ میں مارتونگ نام کا علاقہ ہے بس آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ مارتونگ والے حکیم کے پاس جانا ہے بس آپ پہنچ جائیں گے وہ انتہائی مشہور ہیں۔
دو  راستے جاتے ہیں مارتونگ کی طرف ایک سوات کی طرف سے اور دوسرا مردان کی طرف سے آسان راستہ مردان والا ہے۔ آپ مردان سے بونیر براستہ رستم چلے جائیں اور بونیر پہنچ کر کسی سے بھی مارتونگ کے راستے کا پوچھ لینا پہنچ ہی جائیں گے بغیر کسی دشواری کے۔ مردان سے پانچ یا ساڑھے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں اور ہاں مریض کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
صدقہ جاریہ سمجھ کر زیادہ سے زیادہ شیئر کریں
شکریہ
#copied

June 21, 2019

UP to 2025 Petrol / Diesel Verhicels Will be Finish Future of Electric Vehicles Begins



ڈاکٹر عطاء الرحمن کا انقلاب کو دستک دیتا کالم


اگلے 8 سال میں دنیا میں کہیں بھی کوئی نئی پٹرول یا ڈیزل کی موٹر گاڑیاں، بسیں، یا ٹرک فروخت نہیں کئے جائیں گے۔
پورے خطے کا نظام نقل وحمل برقی گاڑیوں پر منتقل ہو جائیگا نتیجتاً تیل کی قیمتوں میں شدید کمی پیٹرولیم کی صنعت کی تبا ہی کا باعث بنے گی۔
ساتھ ہی موٹر گاڑیاں اوربسیں بنانے کی وہ صنعتیں تباہ ہو جائیں گی جنہوں نے اس جدید صنعتی انقلاب کو اختیار کرنے میں دیر کی خام تیل کی قیمت 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہوجائے گی. پٹرول اسٹیشنوں کو تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا اور لوگ اپنی گاڑیوں کے مقابلے میں کرائے کی گاڑیوں پرسفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔
موٹرگاڑیاں بنیادی طور پر "بھاگتےہوئے کمپیوٹر" بن جائیں گی
اسقدر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیا ں موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی بقا کیلئے خطرہ بن رہی ہیں کیونکہ انہیں اب اس کمپنی کے مقابلے میں برقی گاڑیاں تیار کرنے پر توجہ دینی پڑےگی۔

پروفیسر شبا کی رپورٹ نے بین الاقوامی موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور تیل پیداواری ممالک میں شدید بے چینی کو جنم دیا ہے۔
اس طرح تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک دوبارہ غربت کے اندھیروں میں ڈوب جائیں گے جیسےوہ 1950 تک گھرے ہوئے تھے افسوس کہ وہ تاریخ سے سبق لینے میں بالکل ناکام ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوریا، فن لینڈ اور د یگر ممالک کی طرح مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم کرتے ، انہوں نےاپنی تمام دولت آرام و آسائش یا مغر ب سےحاصل شدہ ہتھیاروں کوخریدنے میں لٹا دی ہے۔

اسی دوڑ کی اہم ترین پیش رفت نئی قسم کی بیٹری ٹیکنالوجی ہے جس کی بدولت گاڑیاں طویل فاصلے طے کر سکتی ہیں اور بیٹری کو بار بار چارج نہیں کرنا پڑتا۔
گزشتہ ہفتے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اب بیٹریوں کو دو منٹ میں چارج کیاجاسکتا ہے۔ یہ بیٹری کے اندر کا الیکٹرو لائٹ فوری طور پر تبدیل کرکے کیا جاتا ہے۔یعنی آئندہ پیٹرول اسٹیشن کی جگہ ایسے بیٹری اسٹیشن قائم ہو جائینگے جہاں پیٹرول ڈلوانے کے بجائے آپ بیٹری کے پانی کو تبدیل کیا کریں گے ان کو ’فلو بیٹریز‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ طریقہ جامعہ  پرڈیو کے پروفیسر نے ایجاد کیا ہے ۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمت کا تقریبا 40 فیصد بیٹریوں پر مشتمل ہے لہٰذا اب کم قیمت اور زیادہ طاقتور بیٹریاں بنانے پر زور دیا جا رہاہے

۔بین الاقوامی اطلاعات کے مطابق ان بیٹر یو ں سےبجلی کی پیداوار فی کلو واٹ گھنٹے کی قیمت 2012 میں 542 ڈالرسے کم ہوکر اب صرف 139 ڈالر ہو گئی ہے اور 2020تک 100ڈالر فی کلو واٹ گھنٹہ تک پہنچنےکی امید ہے۔

برقی موٹرگاڑیاںj پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں شاندار کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں جو سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ منٹوں میں طے کرسکتی ہیں اور بیٹری ایک ہی چارج میں تقریبا 650 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہے ۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمتیں کافی تیزی سے کم ہو رہی ہیں --
2022 تک سب سے کم قیمت برقی موٹر گاڑی کی قیمت 2000 امریکی ڈالر تک ہو جائیگی ۔اس کے بعد پیٹرول کی گاڑیا ں جلد ہی نا پید ہو جائیں گی۔
پروفیسر شبا کی ایک اور پیشں گو ئی کے مطا بق 2025 تک تمام نئی چار پہیوں پر چلتی گاڑیاں عالمی سطح پر بجلی سے چلیں گی چین اور بھارت جدت کی اس نئی لہر کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔

بھارت کا منصوبہ ہے کہ 2032 تک تمام پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں ختم کر دی جائیں۔ بھارت میں فوسل تیل سےچلنے والی گاڑیو ں اور تمام پٹرول اور ڈیزل کاروں پر مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔
چین2025 تک 70 لاکھ برقی گاڑیوں کی سالانہ پیدا وارکا ارادہ رکھتا ہے ۔ اس وقت ہم تاریخ کے اس باب کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو جدت طرازی کی بہت بڑی تاریخی مثال ثابت ہوگاکہ کس طرح جدت طرازی کے ذریعے موٹر گاڑیوں کی صنعت اور پیٹرولیم صنعتوں پر زوال آیا او ر کس طرح بہت سی قومی معیشتیں تباہ ہوئیں۔


June 20, 2019

DEATH AND AFTER MATTERS MUST READ






ریاض جانے کے لیےایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا۔ لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے میں ائیرپورٹ لیٹ پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی، اور دوڑتے ہوئے کاﺅنٹرپر جا پہنچا۔ کاﺅنٹر پرموجودملازم سے میں نے کہا۔ مجھے ریاض جانا ہے، اس نے کہا ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے، میں نے کہا پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دے گا۔میں نے کہا اللہ تمھارا حساب کردے۔اس نے کہا اس میں میراکیاقصور ہے؟
بہرحال میں ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔حیران تھا کیا کروں۔ ریاض جانے کا پروگرام کینسل کر دوں؟یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاﺅں۔یا ٹیکسی میں چلا جاءوں۔بہرحال ٹیکسی میں جانے والی بات پر اتفاق کیا۔ائیرپورٹ کے باہر ایک پرائیوٹ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے پوچھا ریاض کے لیے کتنا لو گے۔اُس نے کہا 500ریال ، بہرحال 450ریال میں بڑی مشکل سے راضی کیا۔اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کے لیے روانہ ہو گیا۔بیٹھتے ہی میں نے اُس سے کہا کہ گاڑی تیز چلانی ہے،اُسنے کہا فکر مت کرو۔واقعی اس نے خطرناک حدتک گاڑی دوڑانا شروع کر دی۔راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔اُسنے میری جاب اور خاندان کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اور کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا۔ کہ اُن سے بات کرلوں۔ میں نے موبائل نکالا۔ اور والدہ کو فون کیا۔ اُنہوں نے پوچھا۔ بیٹے کہاں ہو۔ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتادی۔ ماں نے دُعا دی۔ بیٹے اللہ تمہیں ہر قسم کے شرسے بچادے۔ میں نے کہا۔ ان شاءاللہ جب میں ریاض پہنچ جاﺅ ں گا۔ تو آپکو اطلاع دے دونگا۔
قدرتی طورپر میرے دل پر ایک پریشانی چھا گئی۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔ اُس کے بعد میں نےاپنی بیوی کو فون کیا۔ میں نے اُسے بھی ساری بات بتا دی ، اور اُسے ہدایت کی، کہ بچوں کا خیال رکھے، بالخصوص چھوٹی بچی کا اُ س نے کہا جب سے تم گئے ہو مسلسل آپکے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہامیری بات کرواﺅ۔
بچی نے کہا بابا آپ کب آئیں گے؟ میں نے کہا۔ ابھی تھوڑی دیر میں آجاﺅں گا۔ کوئی چیز چاہیے؟ وہ بولی ہاں میرے لیے چاکلیٹ لے آﺅ۔ میں ہنسا۔ اور کہا ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ کہ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ پوچھا کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں۔ میں نے کہا۔ بھائی تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کونقصان پہنچارہے ہو۔ اُس نے کہا۔ میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ چھوڑ دوں ، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑی قوت کی ہے۔ تم سگریٹ چھوڑنے کا معمولی سا کام نہیں کر سکتے ۔ بہرحال اُسنے کہا آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدمی عطافرمائے (آمین)
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُ س کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے زوردار دھماکہ کی آواز آئی ۔ اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا۔ سپیڈ کم کردو۔ اور گاڑی کو قابو کرو۔ اُس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔گاڑی ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ رُک گئی ۔ مجھے اُس وقت اللہ نے توفیق دی کہ میں نے زورزور سے کلمہ شہادت پڑھا۔
مجھے سر میں چوٹ لگی تھی۔ اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ کہ سر پھٹاجارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ جب کہ میری آنکھیں کھلی تھیں۔ لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُنیں، جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاﺅ نہیں سر سے خون نکل رہا ہے۔ اور ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اور سانس لینے میں شدیددشواری محسوس کررہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا۔ کہ شائد میری موت آگئی ہے۔ اُس وقت مجھے گزری زندگی پر جو ندامت ہوئی ، میں اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ چلا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اس کہانی کے آخر میں بتاﺅں گا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔یہاں پر ہر بھائی بہن تصور کرے کہ جو کچھ ہو رہا ہے میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آنا ہے۔
اس کے بعد لوگوں کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریخی چھاگئی۔ اور میں ایسا محسوس کررہا تھا۔ جیسے میرے جسم کوچھریوں سے کا ٹاجارہا ہو۔ اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔ اُس نے مجھے کہا بیٹے یہ تمھاری زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرنا چاہتاہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہے نصیحت؟
اُ س نے کہا۔ عیسائیت کی ترغیب "قل لبحیا الصلیب" خدا کی قسم اس میں تمھاری نجات ہے۔ اگر تم اس پر ایمان لائے ۔ تو تمہیں اپنے گھروالوں کو لوٹا دوں گا۔ اور تمھاری روح واپس لے آﺅں گا۔ جلدی سے بولو۔ ٹائم ختم ہوا جارہا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا یہ شیطان ہے۔ مجھے اُس وقت جتنی بھی تکلیف تھی۔ اور جتنا بھی اذیت سے دوچارتھا۔ لیکن اُس کے باوجود اللہ اور اُس کے رسول پر پکا ایمان تھا۔ میں نے اُسے کہا جاﺅ اللہ کے دشمن۔ میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ اور مسلمان ہو کر مرﺅں گا۔ اُس کا رنگ زرد پڑگیا۔ بولا تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مر جاﺅ۔ ورنہ میں تمھاری تکلیف بڑھا دوں گا۔ اور تمہاری رُوح قبض کر دوں گا۔ میں نے کہا۔ موت تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جوبھی ہو۔ میں اسلام کی حالت ہی میں مرﺅں گا۔
اتنے میں اُس نے اوپردیکھا۔ اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔ مجھے لگا جیسے کسی نے اُسے ڈرایا ہو۔ اچانک میں عجیب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا ۔ السلام علیکم میں نے کہا وعلیکم السلام۔ اُس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔ اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ اُن کے پاس کفن تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ۔ اُن میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا۔ اور کہا ایتھا النفس المطمئنة اُخرجی الی مغفرۃ من اللہ ورضوان (اے نیک رُوح اللہ کی مغفرت اور اُس کی خوشنودی کی طرف نکل آ)
یہ بات سُن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ میں نے کہا اللہ کے فرشتے میں حاضر ہوں۔
اُس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہورہا تھا۔ جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے جسم سے آسمان کی طرف اُٹھایا جارہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا۔ تو پتہ چلا۔ کہ لوگ میرے جسم کے اردگرد کھڑے ہیں اور انہوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا ۔ اُن میں سے کسی نے کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

میں نے دوفرشتوں کو دیکھا۔ کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں۔ اور مجھے کفن میں ڈال کر اوپر کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ تو مجھے افق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے۔ جیسے کہ میں ایک جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظرآرہی تھی۔ میں نے اُن دو فرشتوں سے پوچھا کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ انہوں نے کہا اس کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمہاری رُوح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اور ہم صرف مسلمانوں پر مامُور ہیں۔ ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزرگئے جن کے پاس ایک رُوح تھی۔ اور اُس سے ایسی خوشبو آرہی تھی۔ کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگی تھی۔ میں نے حیرانگی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا۔ کہ کون ہے۔ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا۔ کہ اللہ کے رسُول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رحلت کر گئے ہیں۔ تو میں کہتا کہ یہ اُن کی رُوح ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک فلسطینی کی رُوح ہے۔ جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا۔ جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کررہا تھا۔ اس کا نام ابو لعبد ہے۔میں نے کہا۔ کاش میں شہید ہو کر مرتا۔
اُس کے بعد کچھ اور فرشتے ہمارے قریب سے گزرے اور اُن کے پاس ایک رُوح تھی۔ جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے کہا یہ بتوں اور گائے کو پوجنے والا ایک ہندو ہے۔ جسے تھوڑی دیر پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کردیا۔ میں نے شکر کیا۔ کہ شکر ہے۔ میں کم ازکم مسلمان مرا ہوں۔ میں نے کہا۔ میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ہورہا ہے۔ میں نے کبھی اس کا تصور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا۔ شکر کرو مسلمان مرے ہو۔ لیکن ابھی تمہارے سامنے سفر بہت لمبا ہے۔ اور بے شمار مراحل ہیں۔
اُس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزرگئے ۔ اور ہم نے انہیں سلام کیا۔ اُنہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟
میرے ساتھ والے دوفرشتوں نے جواب دیا، کہ یہ ایک مسلمان ہے۔ جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکارہو گیا۔ اور اللہ نے ہمیں اس کی رُوح قبض کرنے کا حکم دیا۔ اُنہوں نے کہا۔ مسلمانوں کے لیے بشارت ہے۔ کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں اُنہوں نے کہا۔ یہ وہ فرشتے ہیں۔ جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے رہتے ہیں ۔ میں نے کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم مخلوق ہے۔ اُنہوں نے کہا ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ وہ بولے جبرائیل ؑ اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے۔ اور یہ سب مخلوق ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔
لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون۔ التحریم(وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)۔
اُ سکے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے یہاں تک کہ آسمان دُنیا پر پہنچ گئے ۔ میں اُس وقت ایک خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ نہ معلوم آگے کیا ہوگا۔میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا اور اس کے اندر دروازے تھے ۔ جوبند تھے اور اُن دروازوں پر فرشتے تھے۔ جن کے جسم بہت بڑے تھے۔ ۲ فرشتوں نے کہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور اُن کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے ۔ دوسرے فرشتوں نے جواباَکہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اور انہوں نے کہا۔ رحمت کے فرشتوں اھلا وسھلا ضرور یہ مسلمان ہی ہو گا۔ میرے ساتھ والے فرشتے نے کہا ۔ ہاں یہ مسلمان ہے۔ اُنہوں نے کہا تم اندر آسکتے ہو۔ کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کے لیے کھلتے ہیں۔ کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ (لا تفتح لھم ابواب السماء) کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے۔
ہم اندر آگئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔ پھر ہم آگے بڑھے اور اورپر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں 6تک کہ دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا اوربالآخر ساتوں آسمان پر جا پہنچے ۔ یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آیا جیسے ایک بہت بڑا سمندر۔ فرشتے کہہ رہے تھے: اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذوالجلال والاکرام
مجھ پرایک بہت بڑی ہیبت طاری ہوئی ۔ سر نیچے کیا اور آنسو جاری ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں حکم صادرفرمایا۔ کہ میرے اس بندے کا عمل نام علیین میں لکھدو۔ اور اُسے زمین کی طرف واپس لے جاﺅ۔ کیونکہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں ان کی واپسی ہو گی۔ اور ایک بارپھر اسی زمین سے انہیں اٹھاﺅنگا۔ شدیدرُعب۔ ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں ، میں نے کہا ۔ پروردگار تو پاک ہے۔ لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی۔ جو ہونی چاہیے تھی۔ سبحانک ما عبدناک حق عبادتک
فرشتوں مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جہاں جہاں سے گزرتے گئے دوسرے فرشتوں کوسلام کرتے گئے ۔ میں نے راستے میں اُن سے پوچھا۔ کیا میں اپنے جسم اور گھروالوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟
اُنہوں نے کہا۔ اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے۔ لیکن جہاں تک تمہارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ اُن کی نیکیاں آپ کو پہنچتی رہیں گی۔ لیکن تم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔
اُس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے۔ اور کہا اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ ہمارا کام ختم ہو گیا۔
اب قبر میں تمہارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے، میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپکو جزائےخیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپکو دیکھ سکوں گا؟ اُنہوں نے کہا۔ قیامت کے دن ۔ اور اس کے ساتھ اُن پر ہیبت طاری ہوئی ۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ اگر تم اہل جنت میں سے نکلے۔ تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ان شاء اللہ
میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا۔ اور سُنا۔ کیا اس کے بعد بھی میرے جنت جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا۔ تمہارے جنت جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔تمہیں جو عزت و اکرام ملا۔ وہ اسلئے کہ تم مسلمان مرےہو۔ لیکن تمہیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔
مجھے اپنے گناہ یاد آئے اورکہا کہ زور زور سے روﺅں۔
انہوں نے کہا۔ اپنے رب سے نیک گمان کرو۔ کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہر گز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انہوں نے سلام کیا۔ اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اُٹھ گئے۔
میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی میری آنکھیں بند تھیں۔ اور میرے اردگرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اُس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جا رہا ہے۔ اُن کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی۔ اور جب میرے والددُعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ تو اُن کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔اُس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنچایا گیا۔
میں نے اپنے دل میں کہا۔ افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ختم کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔ افسوس میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر یا نماز یا عباد ت کے بغیر نہ گزارتا، کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس ھائے افسوس۔ اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا ہوں اور نہ دور ہو سکتا ہوں۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اُٹھایا گیا۔ تو جو چیز میرے لئے اُس وقت تکلیف دہ تھی ۔ وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا۔ میں اپنے ابا سے کہدوں ابا جان پلیز رونا بند کردیں بلکہ میرے لئے دُعا کریں۔ کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتے داروں میں اُس وقت جو کوئی میرےلئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے راحت مل جاتی تھی۔
مجھے مسجد پہنچایا گیا۔ اور وہاں اُتارا گیا اور میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاﺅں ۔ میں نے سوچا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کمارہے ہیں۔ جبکہ میرا عمل نامہ بند ہوگیا ہے۔
نماز ختم ہوئی تو موٗذن نے اعلان کیا (الصلوٰۃ علی الرجل یرحمکم اللہ ) امام میرے قریب آیا۔ اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا۔ کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے ۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں؟ اور ان میں کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟
چوتھی تکبیر میں ، میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں مجھے اندازہ کہ وہ لوگوں کی دُعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزید لمبی کردے ۔ کیونکہ لوگوں کی دُعاﺅں سےمجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوئی اور مجھے اُٹھا کر کر قبرستان کی طرف لے گئے راستہ میں کچھ لوگ دُعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے۔اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے تمام گناہ اور غلطیا ں اور ظُلم اور جو غفلت کی گھڑیاں میں نے دُنیا میں گزاری تھیں۔ ایک ایک چیز سامنے آرہی تھی۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس میں گذررہا تھا۔
الغرض قبرستان پہنچا کر مجھے اُتارا گیا۔ اُس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں کوئی کہہ رہا ہے ۔ جنازے کو راستہ دیدو۔ کوئی کہہ رہا ہےاس طرف سے لے جاﺅ ۔ کوئی کہتا ہے قبر کے قریب لکھدو۔ یا اللہ میں نے کبھی اپنے بارے ایسی باتیں نہیں سوچی تھیں۔ مجھے قبر میں رُوح اور جسم کے ساتھ اُتارا گیا۔ لیکن اُنہیں صرف میرا جسم نظر آرہا تھا۔ رُوح نہیں نظر آرہی تھی۔
اُسکے بعد لحد کو بند کرنا شروع کر دیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کے کہدوں، کہ مجھے یہاں نہ چھوڑیں پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ لیکن میں بول نہیں سکتا تھا۔الغرض مٹی ڈالنی شروع ہوئی اور قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں۔لیکن میں اُ ن کے قدموں کی آوازیں سُن رہا تھا۔ اُ ن میں سے جو کوئی میرے لئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے سکون مل جاتا تھا۔اچانک قبر مجھ پر تنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی۔ اور قریب تھا کہ میں ایک چیخ نکال دوں لیکن پھر دوبارہ اصلی حالت پر آگئی ۔
اُس کے بعد میں نے ایک طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے جن کے بڑے بڑے جسم، کالے رنگ، اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی۔ اور اُ ن میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا اگر اُس سے پہاڑ کو مارے تو اُسے ریزہ ریزہ کر دے۔
اُ ن میں سے ایک نے مجھے کہا بیٹھ جاﺅ۔ تومیں فوراَ بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے کہا (من ربک ) تمھار رب کون ہے۔ جس کےہاتھ میں گز تھا۔ وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا۔ (ربی اللہ ) میرا رب اللہ ہے۔ جواب دیتے وقت مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ اس لئے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا۔ بلکہ اُ ن کے رُعب کی وجہ سے۔ پھر اُس نے مزید دو سوال کئے کہہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کونسا ہے اور الحمدللہ میں نے ٹھیک جوابات دیدئیے ۔
اُنہوں نے کہا۔ اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے میں نے پوچھا کیا تم منکر و نکیر ہو؟
اُنہوں نے جواباَ کہا ہاں۔ اور بولے کہ اگر تم صحیح جوابات نہ دیتے تو ہم تمہیں اس گز سے مارتے اور تم اتنی چیخیں نکالتے کہ اُ سے زمین کی ساری مخلوق سُن لیتی۔ سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اور اگر جن و انس اُسے سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔ میں نے کہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اُسکے بعد وہ چلےگئے اور اُن کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا۔
اُ ن کے چلے جانے کے ساتھ ہی مجھے سخت گرمحسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے جیسے کہ جہنم سے کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔ اتنے میں دواور فرشتے نمودار ہوئے اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اُنہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں۔ ہم قبر میں تمہارے اعمال تمہیں پیش کرنے آئے ہیں۔ تاکہ قبر میں قیامت تک تمہیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیے وہ بدلہ مل جائے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں دوچار ہوں۔ میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا نہیں تھا۔
پھر میں نے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ اُنہوں نے کہا ۔ کرلو میں نے پوچھا کیا میں اہل جنت میں سے ہوں۔ اور کیا اتنی ساری تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی میرے لئے جہنم جانے کا خطرہ ہے؟
اُنہوں نے کہا تم ایک مسلمان ہو ۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت جانے کا علم ایک اللہ کے علاوہ کسی کونہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہی رہوگے۔ کیونکہ تم موحد ہو۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں نے کہا اگر اللہ نے مجھے دوزخ بھیج دیا تو پتہ نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟
اُنہوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھو۔ کیونکہ وہ بہت کریم ہے۔ اور اب ہم تمہارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمہارے بلوغت سے وقت سے تمہارے ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔
اُنہوں نے کہا۔ سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے مابین فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ لیکن فی الحال تمہارے سارے اعمال مُعلق ہیں۔
میں نے حیرانگی سے پوچھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کئے ہیں۔ آخر میرے اعمال مُعلق کیوں ہیں؟ اور اس وقت جو میں اپنے جسم میں دُنیا جہاں کی گرمی محسوس کررہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اُنہوں نے کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ تمہارے اُوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیاہے۔
میں روپڑا ۔ اور میں نے کہا۔ کیسے ؟ اور یہ جو میرے اعمال مُعلق ہیں کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟
میرا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ کہ میری قبرمیں اچانک روشنی آگئی۔ اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی۔ کہ ایسی خوشبو نہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سونگھی اور نہ مرنے کے بعد۔
اُس روشنی سے آواز آئی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے پوچھا تم کون ہو؟
اُس نے کہا میں سورۃ المُلک ہوں۔میں اس لئے آئی ہوں کہ اللہ سے تیرے لئے مدد طلب کردوں۔ کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی۔ اور تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بتا دیا تھا۔
کہ جو کوئی سورۃ المُلک پڑھے گا۔ قبر میں وہ اُس کے لئے نجات کا ذریعہ ہوگی۔
میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا میں نے بچپن میں تمہیں حفظ کرلیا تھا۔ اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تیری تلاوت کیا کرتا تھا۔ مجھے اِس وقت تمہاری اشد ضرورت ہے۔اُ س نے کہا اس لئے تو میں آئی ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر لوں کہ وہ تمہاری تکلیف کو آسانی میں تبدیل کر دے۔ لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے۔ کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کئے ہیں۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہے؟
اُس نے کہا۔ تین باتوں میں سے کوئی ایک تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔
میں نے جلدی سے کہا۔ وہ کونسے کام ہیں؟
اُس نے کہا ۔ پہلے یہ بتادو۔کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے ۔جسے دیکھ کر تمہارے ورثہ وہ قرضہ ادا کر دیں؟
ورثہ کا نام سُن کر میرے آنسو نکل آئے ۔مجھے تمام گھروالے امی ، ابو، بیوی، بہن، بھائی اور بچے یاد آئے۔ پتہ نہیں میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس کے ساتھ میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اسکے لئے چاکلیٹ لے کر دے گا؟
میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟
سورۃ المُلک نے پوچھا۔ لگ رہا ہے۔ تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟
میں نے کہا مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے۔ کہ میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے۔ وہی روزی بھی دے گا۔ اور وہی نگہبان بھی ہے۔
سورۃ المُلک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی حاصل ہوئی۔
اُ سکے بعد میں نے پوچھا۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپر ٹوٹل کتناقرضہ ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ میں نے فرشتے سے پوچھا تواُ س نے بتایا کہ ایک ہزار سات سو ریال ۔ 1000 آپ کے دوست کے ہیں جس کا نام ابوحسن ہے۔ اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔
میں نے کہا مختلف لوگ کون ہیں؟
اُ س نے کہا۔ دراصل بلوغت سے لیکر آخری دن تک تم سے کئی بار اس بارے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس طرح قرضہ بڑھ گیا ہے۔ مثلاَپانچ ریال اُس دکاندار کے ہیں جس سے آپ نے کوئی چیز خریدی تھی۔ جبکہ آپکی عمر 15 سال تھی۔ آپ نے اُس سے کہا پیسے کل دیدوں گا۔ اور پھر آپ نے نہیں دئیے۔ اس طرح لانڈری والے سے آپ نے کپڑے دُھلوائے۔ اور اُس کو ادائیگی کرنا بھول گئے ، کرتے کرتے اُس نے سارے لوگوں کے نام بتا دئیے اور سارے مجھے یاد آئے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور اُ ن سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔
کیا تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر نہیں دی تھی۔ کہ شہید کے اعمال بھی روک لئے جائیں گے۔ جب تک اُ س کا قرضہ ادا نہیں ہوا ہو۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟
اُ س نے کہا پہلا حل تو یہ ہے۔ جس کا قرضہ ہے وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔
میں نے کہا۔ اُن میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں ۔جس طرح میں بھول گیا تھا۔ اور اُن کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔
اُس نے کہا۔ پھر دوسرا حل یہ ہے۔ کہ تمہارے ورثہ تمہاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔ میں نے کہا۔ اُ ن کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نام بھی نہیں چھوڑا۔ کیونکہ مجھے موت اچانک آگئی۔ اور مجھے ان ساری مشکلات کا علم نہیں تھا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ ایک اور حل ہو سکتا۔ ہے۔ لیکن میں تھوڑی دیر بعد تمہیں بتا دوں گی۔ اور اب میں جاتی ہوں۔ میں نے کہا خدارا مت جائیے۔ کیونکہ تمہارے جانے سے تاریکی ہو جائے گی۔ جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث ہوبنے گی۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں زیادہ دیر کے لئے نہیں جارہی بلکہ تمہارے لئے کوئی حل نکالنے کے لئے جارہی ہوں۔ اُ س کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا۔ یا ارحم الراحمین۔ اے اجنبیوں کے مولیٰ اور اے ہر اکیلے کے ساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر۔ لیکن فوراَ مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دُعاﺅں کا کیا فائدہ۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔ کہ میں نے ایک مانوس آواز سُن لی۔ میں نے آواز پہچان لی۔ یہ میرے والدبزرگوار کی آوازتھی۔ جو کہہ رہے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے کہا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔لیکن میرا جواب انہیں کون پہنچائے۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ (اللھم اغفرلہ اللہم ارحمہ اللھم وسع مُدخلہ اللھم آنس وحشتہ) پھر انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ اے اللہ میں اس بیٹے سے راضی ہوں۔ تو بھی اس سے راضی ہوجا۔
میرے والد صاحب جب دُعامانگ رہے تھے۔ تو دُعا کے دوران ایک زبردست روشنی میری قبرمیں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا۔ جومیرے والد کی دُعا کو نوٹ کر رہا تھا۔ اور جب تک میرے والد نہیں گئے تھے۔ میرے ساتھ رہا۔
میرے والد صاحب جب واپس ہوئے تو فرشتے نے کہا کہ تیرے والد کی دُعا آسمانوں تک جائے گی۔ اور
ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ کیونکہ والد کی دُعا اپنے بیٹے کے لیے مستجاب ہوتی ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لئے ٹھہرتے اور دُعا مزید لمبی کرتے ۔ کیونکہ اُن کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔ میں نے فرشتے سے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتاہوں۔
کیا پوچھو۔
میں نے کہاجب سے میں مراہوں اب تک کتنا عرصہ گزرگیا؟
اُ س نے کہا۔ جب سے تمہاری وفات ہوئی ۔ آج تیسرا دن ہے۔ اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔
میں نے حیرانگی سے کہا۔ تین دن اور اتنے سارےمعاملات اور واقعات؟ اور یہ قبر کی تاریکی جبکہ باہر دُنیا روشن ہے؟
فرشتے نے کہا۔ تمہارے سامنے بہت لمبا سفر ہے۔ اللہ اسے تمہارے لئے آسان کر دے۔
میں اپنے آپ کو قابو نہ کر سکا اور رونے لگا۔ اور ایسا رویا۔ کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دُنیا میں میری اِس قدر اس سفر کے لیےغفلت!
فرشتے نے جاتے وقت بتا دیا ۔ کہ قبر میں موجودہ روشنی تیرے والد کی دُعا کی وجہ سے ہے۔ اور یہ اسی طرح رہے گی۔ جب تک اللہ چاہے۔ مجھے پتہ چلا کہ والد کا آنا میرے لئے باعث رحمت ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے ابو میری آواز سُن لیں۔ اور میں اُنہیں بتادوں۔ ابو میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں۔ اور میری طرف سے صدقے کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لئے دُعا کریں۔ لیکن کون ہے۔ جو اُنہیں بتا دے۔
میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہو جاتی تھی لیکن اچانک پھر سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا۔ کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دُعائیں ہیں۔
اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی ۔ جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا۔ یعنی سورۃ المُلک کی۔
سورۃ المُلک نے کہا تمہارے لئے دو خوشخبریاں ہیں۔
میں نے اشتیاق کے ساتھ فوراَ کہا ، کیا ہیں؟
تمہارے دوست نے اللہ کی خاطر تمہارا قرضہ معاف کر دیاہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور مجھے پتہ تھا۔ کہ میری گرمی کم ہوجانے کی وجہ شائد یہی تھی۔
میں نے کہا دوسری بشارت کیا ہے؟
اُس نے کہا میں نے اللہ سے بہت درخواستیں کیں۔ لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔
البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا جو تیرے رشتداروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا۔ تاکہ وہ تمہارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔
پھر اس نے پوچھا: تمہارے خیال میں کون بہترہے۔ جس کو خواب میں فرشتہ کسی شکل میں آئے۔ اور پھر وہ اُس کو سچا سمجھ کر قرضہ کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی امی کے بارے میں سوچا۔ لیکن پھرسوچا، کہ اگر اُس نے مجھے خواب میں دیکھا۔ تو رونا شروع کر دے گی۔ اور خواب کی تعبیر نہیں سمجھ سکے گی۔ پھر میں نے تمام رشتداروں کے متعلق سوچا۔ اور جو بندہ مجھے بہتر لگا۔ وہ میری بیوی تھی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ خوابوں کو اہتمام دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا۔ میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے۔ تو ہو سکتا ہے۔ وہ اُس کی تعبیر سمجھ جائے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ آپ کی مشکل کو آسان کر دے۔
اس کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی۔ جو میرے والد کی دُعا کی برکت سے آئی تھی۔ اور میں انتظار کرتا رہا۔ جیسے کہ جیل کے اندر ہوں۔ مجھے ٹائم کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ یہاں گھڑی نہیں تھی۔ نہ نماز، نہ کھاناپینا، نہ اور کوئی مصروفیات۔ دُعائیں مانگنا اور ذکرو اذکار بھی بے کار۔ بعض اوقات لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُن لیتا۔ تو اندازہ کر لیتا کہ شائد کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آجاتی تھیں ۔ تو مجھے تعجب ہوتا تھا۔ کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورت حال سے دوچار ہیں۔
کافی وقت گزرنے کے بعد اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی۔ اور میں چیخنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے میں ایک تندور کے اندرہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا چلاجارہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ بالکل غائب ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کہ ایسا کیوں ہو جاتا ہے۔
اُ س کے بعد ایک بار پھر سورۃ المُلک کی روشنی آگئی ۔ اور مجھے کہا تمہیں مبارک ہو۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اُس نے کہا خوابوں کا فرشتہ تمہاری بیوی کو خواب میں گیا۔ اور تمہاری بیوی نے خواب میں تمہیں ایک سیڑھی پر چڑھتے دیکھا۔ اور دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں۔ اور تم پریشان کھڑے ہو۔ کیونکہ آگے نہیں چڑھ سکتے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اُٹھی۔ تمہاری یاد میں روئی ۔ اور صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا۔ جو خوابوں کی تفسیر کرتی ہے۔ اور اُسے اپنا خواب سنایا۔ اُس عورت نے کہا ، اے بیٹی تمہاری شوہرقبر میں تکلیف میں مبتلا ہے۔ کیونکہ اُس پر کسی کا 1700ریال قرض ہے۔
تیری بیوی نے پوچھا۔ کس کا قرض ہے ۔ اور ہم کیسے ادا کریں؟
اُ س نے کہا مجھے نہیں معلوم اس بارے میں علماء سے معلوم کرو۔
پھر تیری بیوی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا۔ اور اُسے ساری بات بتا دی۔ تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔ الغرض شیخ نے کہا۔ کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دے۔ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُ سے قبول کر کے میت کا عذاب ہٹا دے۔ تیری بیوی کے پاس سونا تھا۔ جس کی قیمت 4000 ریال تھی۔ اُس نے وہ سونا تیرے والد کو دیا۔ اور تیرے والد نے اُ کے ساتھ کچھ رقم مزید لگا کر صدقہ کر دیا۔ اور یوں تیر ا مسئلہ حل ہو گیا۔
میں نے کہا الحمدللہ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تیرے تعاون سے ہوا۔
سورۃ المُلک نے کہا اب اعمال والے فرشتے تمہارے پاس آجائیں گے۔
میں نے پوچھا کیا اس کے بعد بھی میرے لئے کوئی خطرہ ہے؟
اُس نے کہا سفر بہت لمبا ہے۔ ہو سکتا ہے۔ اس میں کئی سال لگ جائیں۔ لہذا ُس کے لئے تیاررہو۔
کئی سال والے جواب نے میری پریشانی میں اضافہ کر دیا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں۔ کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے تھے۔ جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں ہیں۔
میں نے کہا۔ مثلاَ کون سے اعمال؟
اُس نے کہا۔ بہت سارے لوگوں پر قبرو ںمیں اسلئے عذاب ہے۔ کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے۔ اور گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرح چغلی، چوری، سوداور مال یتیم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر عذاب ہورہا ہے۔
پھر اُس نے کہا کہ کچھ لوگوں پر عذاب قبر اس لئے ہے۔ تاکہ قیامت آنے سے پہلے اُن کا کھاتہ صاف ہو جائے۔ اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا۔ اور پھر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔
میں نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ عمل تو تمہارا منقطع ہوچکا ہے۔ البتہ تین کام ایسے ہیں ۔ جو تمہیں اب بھی فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
میں نے پوچھا وہ کیاہیں؟
اُ س نے کہا۔ اہل وعیال کی دُعا اور نیک عمل ۔ اس کے علاوہ کوئی کام اگر تم نے دُنیا میں کیا ہے۔ جو انسانوں کے لئے نفع بخش ہو۔ مثلاَ مسجد کی تعمیر ۔ تو اُس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہو گا۔ اس طرح اگر علم کی نشرو اشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو۔ تو وہ اب بھی تمہارے لئے نفع بخش ہے۔
میں نے کہا میں کتنا بدبخت ہوں کہ دنیا میں کتنے عمل کے مواقع تھے۔ جس سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اور آج بے یارومددگار قبر میں پڑاہوں۔میرا دل چاہا۔ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکارُوں کہ اے لوگوقبر کے لئے تیاری کر لو۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھا۔جو میں نے دیکھا۔ تو مسجدوں سے باہر نہیں نکلو گے،اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دو گے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ مردہ لوگوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
میں نے پوچھا۔ کیا یہ ممکن ہے۔ کہ میرے گھر والے اور میرے رشتےدار مجھے بھول جائیں گے۔ مجھے یقین نہیں آرہا ہے۔ کہ وہ اتنی جلدی مجھے بھول جائیں گے۔
اُ س نے کہا۔ نہیں ضرور ایسا ہوگا۔ بلکہ تم دیکھوگے کہ شروع میں تمہاری قبر پر تمہارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے۔ لیکن جب دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوں گے۔ تو تمہاری قبر پر آنے والا ایک بندہ بھی نہیں ہوگا۔
مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا۔ تو ہم ہر ہفتے اُس کی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر ہر مہینے میں ایک بار اور پھر ہم اُنہیں بھول گئے۔
جب میں زندہ تھا۔ تو مردوں کو بھول جاتا تھا۔ لیکن آج میں خود اُس حالت کو پہنچ چکا ہوں۔ دن ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کے لئے کوئی نہ تھا۔ سوائے چند اعمال کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائیوں اور دوسرے رشتےداروں کا میری قبر پر آنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دُعا پہنچتی رہی۔ جو وہ تہجد میں میرے لئے کرتی رہی۔ بخدا وہ دُعا میرے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔
نیک اعمال کا آنا کم ہوتاچلا گیا۔ نہ معلوم کیا وجہ تھی۔ کہ سورۃ المُلک کا آنا بھی بندہو گیا۔ میری قبر میں پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے۔ جو میں نے کئے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا۔ کتنے گناہ ہیں۔ جو میں نے بڑی دلیری سے کئے تھے۔ کتنی نمازیں ہیں جو میری فوت ہو گئی ہیں۔ کتنی فجر کی نمازیں ہیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں۔
یہ سارے گناہ یاد کر کے میں اتنا رویا کہ مجھے ٹائم کا چونکہ اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے اگر میں کہدوں، کہ مہینوں رویا ہوگا تو مبالغہ نہیں ہو گا۔
ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی۔ جیسے سورج نکل چکا ہو۔ اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں۔ کہ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو چکا ہے۔ کہ میرے پاس سورۃ المُلک آئی اور خوشخبری سُنا دی۔
سورۃ المُلک نے بتایا۔ کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا۔ اور یہ رحمت اور معافی کا مہینہ ہے۔ اور اس بہت سارے مُردے مسلمانوں کی دُعاﺅں کی برکت سے نجات پالیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر کتنا مہربان ہے۔ لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلاہوا ہے۔
سورۃالمُلک نے بتایا۔ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن یہ انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے۔ کہ وہ ایسے گنا ہ کر جاتے ہیں۔ جو اُ کی سزا کا موجب ہوتے ہیں۔پھر اُس نے کہا۔ کہ اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے۔ اور تم اُن کی آوازیں سنوگے۔
سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور روشنی تھی۔ اور میں نے پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سُن لی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا اور تراویح کو یاد کیا تو بہت رویا۔ میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور پھر مٰن نے امام کی دُعا سن لی۔ کہ وہ پڑھ رہا تھا۔
اللهم لا تدع لنا في مقامنا هذا ذنبا الا غفرته ولاهما الا فرجته ولا كربا الا نفستهولا مريضا الا شفيته ولا مبتليً الا عافيته ولا ميتا الا رحمته برحمتك يا ارحم الراحمين۔
اس دُعا سے مجھے بہت سکون ملا۔ اور میں نے تمنا کی۔ کہ امام دُعا کو طول دیدے۔اور میں نے محسوس کیا ، کہ وہ دعا سیدھی قبول ہورہی ہے۔ کیونکہ مجھے اُس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔ میں روتا جا رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ آمین پڑھتا جارہا تھا۔اس طرح رمضان کا سارا مہینہ بہت سکون اور راحت سے گزرا۔
اور پھر ایک دن میری قبرمیں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا۔ جس سے بہت تیز خوشبو آرہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا۔ جو میں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے مجھے سلام کیا اور جواب میں وعلیکم السلام کہا۔ اُس نے کہا۔ میں تمہیں بشارت دیتا ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ معاف کئے ہیں۔
میں نے کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اُس نے کہا میں انسان نہیں ہوں۔ میں نے پوچھا تو کیا آپ فرشتے ہیں بولا نہیں میں دراصل تمہارا نیک عمل ہوں۔ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے، حج۔ انفاق فی سبیل اللہ اور صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس شکل میں تمہارے پاس بھیجا ہے۔
میں بہت خوش ہوا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے پوچھا تم اتنے لیٹ کیوں آئے؟
اُسنے کہا تمہارے گناہ اور تمہارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان کردیا۔ تو میرے لئے راستہ کھل گیا۔
میں نے پوچھا ۔ تو کیا اس معافی کے بدلے میں اللہ تعالیٰ مجھے جنت دے گا؟
اُس نے کہا یہ بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ پھر اُس نے کہا قیامت کے دن میزان سے تمہاری جنت اور دوزخ جانے کا پتہ چلے گا۔
اُس کے بعد عمل صالح نے کہا۔ کہ تمہارے کچھ نیک اعمال بالکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں کام آگئے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟
اُس نے کہا اگر تمہیں یاد ہو۔ تو مرتے وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی اور تم نے کلمہ تشہد پڑھا۔تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ کہ فرشتوں کو کتنی خوشی ہوئی کہ تمہاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا۔ جبکہ شیطان تمہیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کررہا تھا۔اُس وقت تمہارے اردگرد دوقسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور کچھ وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔جب تم نے کلمہ پڑھا۔ تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ اور پھر اُنہوں نے تمہاری رُوح قبض کر لی۔
میں نے پوچھا ۔ اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟
اُ س نے کہا۔ ہاں جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی۔ تو آج جو خوشبو تم سونگھ رہے ہو۔ اُس نصیحت کی بدولت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی والدہ کو تمہاری کال اور اُس کے ساتھ جو بھی تم نے باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کے بدلے تمہارے لئے نیکیاں لکھ دیں۔مجھے یاد آیا جو باتیں میں نے والدہ سے کی تھیں۔ مجھے پتا ہوتا تو میں اُن باتوں میں گھنٹہ لگا دیتا۔
پھرعمل صالح نے بتایا کہ زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمہارے کھاتے میں لکھا گیا۔ میں حیران ہوا۔ اور پوچھا وہ کیسے؟
عمل صالح بولا۔ تم نےبچی سے کہا۔ میں تھوڑی دیر میں آجاﺅنگا۔ اس طرح تم نے اُسے جھوٹ بول دیا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔ میں رویا میں نے کہا اللہ کی قسم میراارادہ جھوٹ کا نہیں تھا۔ بلکہ میرا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ میرے آنے تک صبر کرلیگی۔
اُس نے کہا۔ جو بھی ہو۔ آدمی کو سچ بولنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بہت تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پھر اُس نے کہا۔ تمہاری وہ بات بھی گناہ کے کھاتے میں لکھدی گئی ہے۔ جو تم نے ائیرپورٹ میں کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہدی ۔ کہ اللہ تمہاراحساب کردے۔ اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دُکھادیا۔ میں حیران ہو گیا۔ کہ اتنی اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنی ہیں۔
عمل صالح نے مزیدبتایا: کہ یہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ کہ جب وہ ایک نیکی کریں۔ تو اللہ تعالیٰ اُسے 10گناہ بلکہ 700 گناہ بڑھا دیتا ہے۔اور بہترین اعمال وہ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔
میں نے کہا۔ پنج وقتہ نمازکے بارے میں کیا خیال ہے؟
عمل صالح نے کہا۔ کہ نماز، زکوۃ، صیام، حج وغیرہ تو فرائض ہیں ۔ میں ان کے علاوہ بھی تمہیں ایسے اعمال بتادوں گا۔ جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔
میں نے کہا ۔ وہ کیا ہیں؟
بولا تمہاری عمر جب 20سال تھی۔ تم عمرے کے لئے رمضان کے مہینے میں گئے تھے۔تم نے وہاں 100 ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں بانٹ دی۔ اس کا بہت اجر تم نے کمایا ہے۔
اس طرح ایک بار بوڑھی عورت کو کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی ایک نیک عورت تھی۔ اُس نے تمہیں جو دُعائیں دی ۔ اُس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت نیکیاں اور اجردیا ہے۔
میں تمہیں ایک اور بات بتادوں۔ ایک بار تم مدینہ جارہے تھے۔ کہ راستے میں تمہیں ایک آدمی کھڑا ملا۔ جس کی گاڑی خراب ہوئی تھی۔ تم نے اُس کی جو مدد کی ، اللہ تعالیٰ کو تمہاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمہیں اُس کا بہت بڑا اجرملا ہے۔
اُس کے بعد میری قبر کھل گئی ۔اوراُس میں بہت زیادہ روشنی آگئی۔ اور فرشتوں کے گروہ درگروہ آتے ہوئے نظرآئے۔عمل صالح بھی. ذرا سوچئے!
یہ کہانی عبرت کے لئے لکھی گئی ہے ۔ لیکن احادیث مبارکہ کے بیان کےمطابق ہے۔
-کیا اس کہانی کے سننے کے بعد بھی ہم آخرت کے لئے فکرمند نہیں ہوں گے؟
- کیا اس کہانی کے بعد بھی ہم گناہ کریں گے؟
[ سب سے پہلے سینڈ کر دو
کیونکہ جب تک کوئی یہ پیغامات پڑھتا رہے گا
جنت میں آپ کے نام کا درخت لگتا رہے گا
Dont
حدیث میں ہے کہ جو دوسروں کا بھلا کرتا ہے.
اللہ اس کا بھلا کرتا ہے.
..
چھوٹی سی دعا
"اے اللہ"
جب تو اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور پکارے ...
"ہے کوئی رحمت مانگنے والا؟
ہے کوئی خوشیاں مانگنے والا؟
ہے کوئی شفا مانگنے والا؟
ہے کوئی میرے "محبوب"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت مانگنے والا؟
تو میری دعا ہے،
"یا اللہ"
ساری خوشی
ساری رحمت
ساری كاميابياں
ساری بركتیں
ساری نعمتیں
"نبی اے پاک"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت اس شخص کو دےدے جو یہ میسیج پڑھ کے دوسرے کو بھی اس خوبصورت دعا میں شامل کرے ...!
* آمین *
[9:نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.
إن موقعوں پر دعا مانگو اس وقت دعا رد نہیں ہو گی.
1؛-جب دھوپ میں بارش ہو رہی ہو.
2:- جب اذان ہو رہی ہو.
3:- سفر کے دوران.
4:-جمعہ کے دن.
5:-رات کو جب آنکھ کھلے
اس وقت.
6:-مصیبت کے وقت.
7:-فرض نماؤں کے بعد.
آپ (صل اللہ علیہ و سلم ) نے فرمایا:- اللہ👈اس کے چہرے کو روشن کرے. جو حدیث سن کر آگے پہنچائے۔

Total Pageviews