افغانستان کی پاکستان میں مداخلت کی تاریخ
پی ٹی ایم بضد ہے کہ میچ میں اگر افغانیوں نے چند پاکستانیوں کو مار بھی دیا تو کون سی قیامت آگئی۔ پاکستان اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے جو اس نے افغانستان میں آج تک کیا!
پاکستان نے کیا یا افغانستان نے؟
آئیں آج آپ کو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔
تیس ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔
ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ " پشتونستان" کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔
ایلچی نجیب اللہ 1947 ء میں ہی افغان نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔
قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
1948ء میں افغانستان نے " قبائل " کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔
سن 1948ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔
روس بنائی ہوئی افغان فضائیہ نے 1949 میں طیاروں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
بارہ اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
اگست31، 1949ء کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔ اس جرگے میں ہر سال "31 اگست" کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسی جرگہ میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً "سرشتہ گروپ" تھا۔
اس کی دہشت گردانہ کاروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں۔
فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔
ء 1949 میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔
جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دئیے گئے۔
ء میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر " مہر علی " نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے 1954 ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ 1950 میں دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشتگرد "سعد اکبر ببرج" مردود نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔ یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کردیا۔
لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
جنوری6، 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ "پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے"
نومبر26، 1953 کو افغانستان کے کےنئے سفیر "غلام یحیی خان طرزی" نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انہوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
مارچ28، 1955 میں افغانستان کے صدر "داؤد خان" نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
ء 55میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔
یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ اس کی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا۔
مئی 1955ء میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نے بیان جاری کیا کہ " اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے"۔ جس کے بعد وہ رک گئے۔
انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر "میخائل وی۔ ڈگٹائر" نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
نومبر1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں۔
مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
ستمبر 1960،28، کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کردیا۔
پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس دھکیل دیا۔
ء 1960کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
ء 1960میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔
مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔
اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔
افغان حکومت نے حملے کی حقیقت سے انکار کردیا۔
جولائی 1963ء میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔
اس کے بعد دو سال تک امن رہا۔
ء 1965میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔
لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔
ء1970 میں افغانستان نے اے این پی والوں کے " ناراض پشتونوں" اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے۔ عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے۔
ء1971 میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔
اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہونگے۔
ء 1972میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔
تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر "آزاد بلوچستان" تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغان تخریب کاریاں جاری رہی۔
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخرپاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
ء1973 میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے "پشتون زلمی" کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔
ء 1974میں افغانستان نے " لوئے پشتونستان" کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ تصویر پوسٹ کے ساتھ ہے۔
فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم "پشتون زلمی" نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔
(بحوالہ کتاب "فریب ناتمام" از جمعہ خان صوفی)
اپریل28، 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت "پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان" نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے "انقلاب ثور" کا نام دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔
کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی " لوئے پشتونستان" کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔
ء 1979میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
دسمبر24، 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے۔
یعنی بلوچستان اور کے پی کو لے لینگے۔
روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مدد کی۔
ء 1980میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبنیہ طور پر پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کر دیا۔
ء 79سے 89ء تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ کے جی بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوۓ۔
ء 2006سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ ملکر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے۔
ان تمام تنظیموں کی مشترکہ کارائیوں میں اب تک 60،000 پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد پشتون، تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں۔ پاکستان کو کم از کم 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان پندرہ سالوں میں افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کرائے ان کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔
اسی عرصے میں امریکہ نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی سرحدوں پر ڈیوہ اور مشال کے نام سے اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاز کیا جن کا تقریباً سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے یا لوئے پشتونستان کے علمبرداروں پر۔
ان ریڈیو چینلز نے ان دونوں علاقوں میں پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔
افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پر کیا گیا جس میں بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر7 افغان دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس میں 150 بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کردیا۔
جون 2016ء میں افغان نیشنل آرمی نے تورخم بارڈر پر گیٹ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد خان کو شہید کر دیا۔
پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہوگئیں۔
بعد میں زخمی فوجیوں کا علاج کرنے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی۔
5 مئی 2017ء کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن، بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 پاکستانی سویلینز ( پشتون) شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوۓ۔
جواباً پاک فوج کے حملے میں 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔
اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفےکے بعد دہشتگرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظمیوں کے مراکز افغانستان میں ہیں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب ڈیوہ اور مشال کی مسلسل محنت رنگ لے آئی۔
اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آباد کاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018ء میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے۔ افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے ان کی اعلانیہ حمایت کی۔
افغانیوں نے افغانستان سمیت دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
اسی تحریک میں " پاکستان مردہ باد" ۔۔ " اسرائیلی آرمی زندہ باد" ۔۔ " دہشت گردی کے پیچھے وری" ۔۔ " لرو بر یو پشتون ( لوئے پشتونستان ) اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دئیے گئے۔
افغان شعراء نے اس کے حق میں شاعری کی، غزلیں لکھیں، افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت میں آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کبھی کسی نے دیکھی نہ پہنی کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا۔
وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنہوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس نئی تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگینڈا شروع کردیا۔
پی ٹی ایم مخالفین یا پاکستان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک ماتوڑکے، ملک عباس اور ایس پی طاہر داؤڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔
ایس پی طاہر داؤڑ کو این ڈی ایس کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور پھر افغان حکومت نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاش پی ٹی ایم کے حوالے کی گئی۔
چند دن پہلے جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو تمام افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
افغانستان میں ہی این ڈی ایس اور ملا تور کے زیر قیادت ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا جس میں ٹی ٹی پی نے انڈین جہاز گرانے پر پاکستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
فاٹا طلباء کے لیے مفت داخلوں کا اعلان کیا۔ جو طلباء اس جھانسے میں آکر افغانستان گئے انکا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
دو دن پہلے پکتیکا میں وزیرستان کے اٹھ لوگوں کو محض اس لیے شہید کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایک دو سال پہلے بھی ایک افغانی فوجی نے اسی طرح پاکستانی پشتونوں کو قتل کر دیا تھا جو مزدوری کرنے افغانستان گئے تھے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر شیر کر دی تھی۔
بقول حسن خان صاحب کے" کسی کا صرف پاکستانی پشتون ہونا افغان فوج کو اس کے قتل کا لائسنس دے دیتا ہے" ۔۔
یہ ہے افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردیوں اور دراندازیوں کی تاریخ جنہوں نے نہ کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دیا نہ پشتونوں کو۔
اگر پی ٹی ایم کو افغانستان کی یہ دراندازیاں نظر نہیں آرہیں تو مان لیجیے کہ پی ٹی ایم درحقیقت سرشتہ گروپ، پشتون زلمی اور ٹی ٹی پی کی تازہ قسط ہے۔
اس پوسٹ کو اپنی ٹائم لائن، پیجز اور گروپس میں زیادہ سے زیادہ پھلائیں۔ اور
افغانیوں، اچکزئیوں اور پی ٹی ایم والوں سےسوال کریں۔
آئیں آج آپ کو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔
تیس ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔
ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ " پشتونستان" کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔
ایلچی نجیب اللہ 1947 ء میں ہی افغان نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔
قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
1948ء میں افغانستان نے " قبائل " کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔
سن 1948ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔
روس بنائی ہوئی افغان فضائیہ نے 1949 میں طیاروں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
بارہ اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
اگست31، 1949ء کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔ اس جرگے میں ہر سال "31 اگست" کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسی جرگہ میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً "سرشتہ گروپ" تھا۔
اس کی دہشت گردانہ کاروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں۔
فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔
ء 1949 میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔
جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دئیے گئے۔
ء میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر " مہر علی " نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے 1954 ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ 1950 میں دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشتگرد "سعد اکبر ببرج" مردود نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔ یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کردیا۔
لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
جنوری6، 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ "پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے"
نومبر26، 1953 کو افغانستان کے کےنئے سفیر "غلام یحیی خان طرزی" نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انہوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
مارچ28، 1955 میں افغانستان کے صدر "داؤد خان" نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
ء 55میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔
یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ اس کی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا۔
مئی 1955ء میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نے بیان جاری کیا کہ " اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے"۔ جس کے بعد وہ رک گئے۔
انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر "میخائل وی۔ ڈگٹائر" نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
نومبر1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں۔
مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
ستمبر 1960،28، کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کردیا۔
پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس دھکیل دیا۔
ء 1960کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
ء 1960میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔
مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔
اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔
افغان حکومت نے حملے کی حقیقت سے انکار کردیا۔
جولائی 1963ء میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔
اس کے بعد دو سال تک امن رہا۔
ء 1965میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔
لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔
ء1970 میں افغانستان نے اے این پی والوں کے " ناراض پشتونوں" اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے۔ عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے۔
ء1971 میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔
اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہونگے۔
ء 1972میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔
تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر "آزاد بلوچستان" تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغان تخریب کاریاں جاری رہی۔
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخرپاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
ء1973 میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے "پشتون زلمی" کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔
ء 1974میں افغانستان نے " لوئے پشتونستان" کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ تصویر پوسٹ کے ساتھ ہے۔
فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم "پشتون زلمی" نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔
(بحوالہ کتاب "فریب ناتمام" از جمعہ خان صوفی)
اپریل28، 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت "پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان" نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے "انقلاب ثور" کا نام دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔
کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی " لوئے پشتونستان" کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔
ء 1979میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
دسمبر24، 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے۔
یعنی بلوچستان اور کے پی کو لے لینگے۔
روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مدد کی۔
ء 1980میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبنیہ طور پر پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کر دیا۔
ء 79سے 89ء تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ کے جی بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوۓ۔
ء 2006سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ ملکر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے۔
ان تمام تنظیموں کی مشترکہ کارائیوں میں اب تک 60،000 پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد پشتون، تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں۔ پاکستان کو کم از کم 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان پندرہ سالوں میں افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کرائے ان کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔
اسی عرصے میں امریکہ نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی سرحدوں پر ڈیوہ اور مشال کے نام سے اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاز کیا جن کا تقریباً سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے یا لوئے پشتونستان کے علمبرداروں پر۔
ان ریڈیو چینلز نے ان دونوں علاقوں میں پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔
افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پر کیا گیا جس میں بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر7 افغان دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس میں 150 بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کردیا۔
جون 2016ء میں افغان نیشنل آرمی نے تورخم بارڈر پر گیٹ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد خان کو شہید کر دیا۔
پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہوگئیں۔
بعد میں زخمی فوجیوں کا علاج کرنے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی۔
5 مئی 2017ء کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن، بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 پاکستانی سویلینز ( پشتون) شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوۓ۔
جواباً پاک فوج کے حملے میں 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔
اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفےکے بعد دہشتگرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظمیوں کے مراکز افغانستان میں ہیں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب ڈیوہ اور مشال کی مسلسل محنت رنگ لے آئی۔
اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آباد کاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018ء میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے۔ افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے ان کی اعلانیہ حمایت کی۔
افغانیوں نے افغانستان سمیت دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
اسی تحریک میں " پاکستان مردہ باد" ۔۔ " اسرائیلی آرمی زندہ باد" ۔۔ " دہشت گردی کے پیچھے وری" ۔۔ " لرو بر یو پشتون ( لوئے پشتونستان ) اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دئیے گئے۔
افغان شعراء نے اس کے حق میں شاعری کی، غزلیں لکھیں، افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت میں آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کبھی کسی نے دیکھی نہ پہنی کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا۔
وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنہوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس نئی تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگینڈا شروع کردیا۔
پی ٹی ایم مخالفین یا پاکستان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک ماتوڑکے، ملک عباس اور ایس پی طاہر داؤڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔
ایس پی طاہر داؤڑ کو این ڈی ایس کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور پھر افغان حکومت نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاش پی ٹی ایم کے حوالے کی گئی۔
چند دن پہلے جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو تمام افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
افغانستان میں ہی این ڈی ایس اور ملا تور کے زیر قیادت ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا جس میں ٹی ٹی پی نے انڈین جہاز گرانے پر پاکستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
فاٹا طلباء کے لیے مفت داخلوں کا اعلان کیا۔ جو طلباء اس جھانسے میں آکر افغانستان گئے انکا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
دو دن پہلے پکتیکا میں وزیرستان کے اٹھ لوگوں کو محض اس لیے شہید کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایک دو سال پہلے بھی ایک افغانی فوجی نے اسی طرح پاکستانی پشتونوں کو قتل کر دیا تھا جو مزدوری کرنے افغانستان گئے تھے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر شیر کر دی تھی۔
بقول حسن خان صاحب کے" کسی کا صرف پاکستانی پشتون ہونا افغان فوج کو اس کے قتل کا لائسنس دے دیتا ہے" ۔۔
یہ ہے افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردیوں اور دراندازیوں کی تاریخ جنہوں نے نہ کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دیا نہ پشتونوں کو۔
اگر پی ٹی ایم کو افغانستان کی یہ دراندازیاں نظر نہیں آرہیں تو مان لیجیے کہ پی ٹی ایم درحقیقت سرشتہ گروپ، پشتون زلمی اور ٹی ٹی پی کی تازہ قسط ہے۔
اس پوسٹ کو اپنی ٹائم لائن، پیجز اور گروپس میں زیادہ سے زیادہ پھلائیں۔ اور
افغانیوں، اچکزئیوں اور پی ٹی ایم والوں سےسوال کریں۔