دل کو آلودہ رکھتا ہوں – رعایت اللہ فاروقی
خرابی یہ نہیں کہ میں گناہ کرتا
ہوں، خرابی یہ ہے کہ میں انہیں دھونے والی نیکیاں کام میں نہیں لاتا اور دل کو
مستقل آلودہ رکھتا ہوں.
میں
دکھی کے دکھ نہیں بانٹتا.
مریض کی خیریت نہیں پوچھتا.
زخمی کو مرہم نہیں دیتا.
صدمے سے سے برستی آنکھ نہیں پونچھتا.
تعلیم سے محروم رہ جانے والے کی فیس نہیں دیتا.
یتیم کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتا.
میں
دکھی کے دکھ نہیں بانٹتا.
مریض کی خیریت نہیں پوچھتا.
زخمی کو مرہم نہیں دیتا.
صدمے سے سے برستی آنکھ نہیں پونچھتا.
تعلیم سے محروم رہ جانے والے کی فیس نہیں دیتا.
یتیم کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتا.
میں اچھا پڑوس تو چاہتا ہوں لیکن
اچھا پڑوسی بننا میری ترجیحات میں نہیں. پڑوسی کی بھوک اور پیاس سے اس درجے کا بے
غرض ہو چکا کہ اس کے حصے کی گیس بھی کمپریسر کی مدد سے چھین لیتا ہوں جس سے اس کی
چپاتی نہیں بن پاتی.
میں عجیب ہی مخلوق ہوں۔ رزق سے بھی
حرمت کی بنیاد پر نہیں قیمت کی بنیاد پر سلوک کرتا ہوں. میں گھر میں بچ جانے والا
کھانا کچرے میں پھینک دیتا ہوں اور شنواری کی بچ جانے والی تین بوٹیاں پیک کرا
لیتا ہوں۔
میں چوراہے پر گاڑی کے شیشے پر دستک
دینے والے سوالی کو ”غیر مستحق“ کی لاجک سے جھاڑ دیتا ہوں اور بھول جاتا ہوں کہ
قرآن مجید تو مستحق اور غیر مستحق کی بات ہی نہیں کرتا، وہ تو مستحق نہیں بلکہ
”سائل“ کا لفظ استعمال کرتا ہے اور مانگنے والا سائل ہی تو ہے۔ کیا میں زکوۃ بانٹ
رہا ہوں کہ مستحق کی تحقیق کروں؟
میں طلاق یافتہ بچی کے دکھ تو تب
سنوں گا جب اسے حقارت سے دیکھنا بند کروں.
میری جہیز لسٹ دیکھ کر بچیوں کے باپ سہم جاتے ہیں اور بچیاں اندھیری راتوں میں سرمہ آلود آنسوؤں سے روتی ہیں.
میں نے باپ کو پاپا اور ماں کو ماما تو بنا لیا لیکن انہیں ماں باپ نہیں بنا سکا.
مجھے عید کے روز بھی بھائی کا اپنے گھر آنا گوارا نہیں میں باپ کی وراثت میں سے بہنوں کا حصہ مارنے کی سکیمیں بنا رہا ہوں اور حیران ہوں کی میری اولاد فرماں بردار کیوں نہیں؟
رشتے ناتے کیا اور انسان کیا، میں تو گرمیوں میں گھر کی بیرونی دیوار پر پرندوں کے لیے پانی بھی نہیں رکھتا۔ لیکن رکھوں بھی تو کس کے لیے؟میں نے جب سے بچ جانے والی روٹیاں اور اس کے ذرے بھسی ٹکڑے والے کو فروخت کرنے شروع کیے ہیں، پرندوں نے میری منڈیر پر آنا ہی چھوڑ دیا ہے.
میری جہیز لسٹ دیکھ کر بچیوں کے باپ سہم جاتے ہیں اور بچیاں اندھیری راتوں میں سرمہ آلود آنسوؤں سے روتی ہیں.
میں نے باپ کو پاپا اور ماں کو ماما تو بنا لیا لیکن انہیں ماں باپ نہیں بنا سکا.
مجھے عید کے روز بھی بھائی کا اپنے گھر آنا گوارا نہیں میں باپ کی وراثت میں سے بہنوں کا حصہ مارنے کی سکیمیں بنا رہا ہوں اور حیران ہوں کی میری اولاد فرماں بردار کیوں نہیں؟
رشتے ناتے کیا اور انسان کیا، میں تو گرمیوں میں گھر کی بیرونی دیوار پر پرندوں کے لیے پانی بھی نہیں رکھتا۔ لیکن رکھوں بھی تو کس کے لیے؟میں نے جب سے بچ جانے والی روٹیاں اور اس کے ذرے بھسی ٹکڑے والے کو فروخت کرنے شروع کیے ہیں، پرندوں نے میری منڈیر پر آنا ہی چھوڑ دیا ہے.
مجھے ہلکا مت لینا!
میں ڈبے کا قیمتی دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں.
میری جوانی کے ایف سی اور میکڈانلڈ کا قرض ہے.
میری گاڑی میں لگا ساؤنڈ سسٹم ڈیڑھ لاکھ کا ہے.
میں آئی فون ہر چھ ماہ بعد بدل لیتا ہوں.
میری کافی کے مگ میں دیکارت کا عکس ابھرتا ہے تو سگار کے دھویں میں ہائڈِگر کی شبیہ بل کھاتی ہے.
میں ڈبے کا قیمتی دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں.
میری جوانی کے ایف سی اور میکڈانلڈ کا قرض ہے.
میری گاڑی میں لگا ساؤنڈ سسٹم ڈیڑھ لاکھ کا ہے.
میں آئی فون ہر چھ ماہ بعد بدل لیتا ہوں.
میری کافی کے مگ میں دیکارت کا عکس ابھرتا ہے تو سگار کے دھویں میں ہائڈِگر کی شبیہ بل کھاتی ہے.
میں نے علومِ دینیہ بھی تمام کے
تمام پڑھ رکھے ہیں، میں اتنا بڑا شیخ الحدیث ہوں کہ میرے لیے وقف املاک اولاد کو
میراث میں دے دینا حلال ہو چکا ہے.
میں اتنا اعلیٰ درجے کا ”دیندار“ ہوں کہ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ میں سے جو بھی ایک میں ہو جاؤں باقی تین مجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں.
میں مسجد میں اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں لیکن اپنے کلینک پر ہومیوپیتھی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور ایلوپیتھی سے کچھ نہ ہونے کا یقین پال لیتا ہوں.
میں اتنا اعلیٰ درجے کا ”دیندار“ ہوں کہ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ میں سے جو بھی ایک میں ہو جاؤں باقی تین مجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں.
میں مسجد میں اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں لیکن اپنے کلینک پر ہومیوپیتھی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور ایلوپیتھی سے کچھ نہ ہونے کا یقین پال لیتا ہوں.
میرا شعور اتنا اعلیٰ درجے کا ہے کہ
میں نے دریافت کر لیا ہے کہ زرداری، نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن
فساد کی جڑ ہیں۔ میرے ملک کی تمام نحوستیں انھی کی وجہ سے ہیں.
خرابی یہ نہیں کہ میں گناہ کرتا
ہوں، خرابی یہ ہے کہ میں انہیں دھونے والی نیکیاں کام میں نہیں لاتا اور دل کو
مستقل آلودہ رکھتا ہوں.