کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے”
مریض
نے لمبی سانس لی‘ کمرے میں موجود لوگوں کی طرف غور سے دیکھا‘ مسکرایا‘
ہاتھ ہلایا‘ ہچکی لی اور ہمیشہ کےلئے آنکھیں بند کر لیں‘ اگلے دن دنیا بھر
کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی ”سنگا پور کے بانی وزیراعظم لی کو آن یو 23
مارچ کو 91 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے“۔
لی
کو آن یو اور سنگا پور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں‘ ہم جب تک لی کو
آن یو کا نام نہ لیں اس وقت تک سنگا پور مکمل نہیں ہوتا اور ہم جب تک سنگا
پور کو تسلیم نہ کریں اس وقت تک لی کو آن یو مکمل نہیں ہوتے‘ یہ دونوں
جڑواں بھائی ہیں‘ سنگاپور 640 مربع کلومیٹر کا ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا‘ یہ
انیسویں صدی تک ہولناک جنگل تھا‘جنگل میں خونخوار درندوں، شیروں اور مگر
مچھوں کا راج تھا‘1965ءتک جزیرے میں خطے کی سب سے بڑی دلدل بھی تھی‘ یہ
بحری قزاقوں کا اپنا مسکن بھی تھا‘ دنیا کا کوئی شخص اس جزیرے کی طرف رخ
نہیں کرتا تھا۔ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ جزیرہ خرید لیا،
پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے اسے بحری اڈہ بنالیا‘یہ دوسری جنگ عظیم میں
جاپان کے قبضے میں چلا گیا۔ سنگاپور 1963ءمیں ملائشیا کو واپس مل گیا لیکن
1965ءمیں ملائشیا نے اسے بوجھ سمجھ کر سر سے اتاردیا‘سنگاپور کو آزادی دے
دی گئی‘لی کو آن یو اس وقت سنگاپور کے وزیراعظم تھے، وہ پہلی بار 1959ءمیں
وزیراعظم منتخب ہوئے تھے‘ وہ آزاد سنگاپور کے پہلے وزیراعظم بنے، لی کو آن
یو نے اس بدبودار جزیرے کو دنیا کا شاندار ملک بنانے کا فیصلہ کیا‘ پورے
ملک سے ایماندار لوگوں کو چن کر جج بنایاگیا‘ ان ججوں کو مکمل خود مختاری
دی گئی‘ یہ جج صدر اور وزیراعظم سے لے کر چپڑاسی تک تمام سرکاری اہلکاروں
کو کسی بھی وقت عدالت میں طلب کر سکتے تھے اور ان کی کھلے عام گو شمالی
ہوتی تھی‘ لی کو آن یو نے انصاف کے بعد سنگاپور کے خوشحال طبقے سے انتہائی
پڑھے لکھے، مہذب اور ایماندار لوگ چنے اور انہیں اپنی کابینہ میںشامل
کرلیا‘ کابینہ کےلئے احتساب کا ایک کڑا نظام تشکیل دیاگیا ‘اس نظام سے کوئی
شخص مبرا نہیں تھا‘ اس کے بعد پوری دنیا میں بکھرے سنگاپور کے پڑھے لکھے
اور ہنرمند نوجوانوں سے رابطہ کیا گیا‘ نوجوانوں کو بھاری معاوضے پر سرکاری
ملازمتوں کی پیش کش ہو ئی‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی سنگاپور دنیا کا
واحد ملک تھا جس میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں کارپوریٹ سیکٹر کے
برابررکھی گئیں‘سنگا پور میں اگر ایک ایم بی اے نوجوان کو پرائیویٹ بینک دو
لاکھ روپے تنخواہ دےتاتھا تو حکومت بھی اس کوالیفکیشن کے نوجوان کو دو
لاکھ روپے تنخواہ دیتی تھی۔لی کو آن یو نے سنگاپور کے قانون کو دنیا کا سخت
ترین قانون بنا دیا تھا مثلاً سنگاپور میں کسی دیوار یا عوامی جگہ پر گالی
لکھنے کی سزا موت تھی اور سنگاپور میں اگر کوئی وزیر یا مشیر کرپشن میں
ملوث پایا جاتا تھا تو لی کو آن یو اسے خود کشی یا احتساب میں سے ایک آپشن
کے انتخاب کا موقع دیتے تھے‘ وزراءعموماً اس لمحے خودکشی کو ترجیح دیتے
تھے‘ لی کو آن یو کی اصطلاحات کے نتیجے میں صرف تیس برسوں میں سنگاپور دنیا
کا نواں امیر ترین ملک بن گیا‘ لی کو آن یو تیس برس بعد 1990ءمیں مستعفی
ہو گئے اور انہوں نے اپنے لیے نگران کا کردار منتخب کرلیا۔
میاں نواز شریف 1999ءمیں سنگاپور کے دورے پر گئے‘ نواز شریف نے سرکاری مصروفیات کے بعد لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ”ٹپس“ لیناچاہتے تھے‘ سنگاپور کے وزیراعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کردی‘ نواز شریف نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہوگئے‘ یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاﺅس میں ہوئی‘ گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں‘ نواز شریف نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا ”کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا“ لی کو آن نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلادیا‘ ان کا رد عمل‘ سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا‘ حاضرین پریشان ہوگئے ‘ لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے”اس کی تین وجوہات ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے ” پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے‘ آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں“ وہ رکے اور ذرا دیر بعد بولے ”آپ خود خودفیصلہ کیجئے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں ‘وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟ دوسری وجہ‘ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا‘ میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے‘ میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا‘میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ‘ تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاﺅ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا‘ آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرادیں‘ میں اس کی صلح کرا دیتاتھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتاتھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا‘ وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا‘ میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے“ لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ”میرا تجربہ ہے جوقومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اور تیسری اورآخری وجہ فوج ہے‘ آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی اثر میں رہ کر ترقی کی ہو“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”فوجی اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ فوجی مسئلہ پیدا کرتا ہے جبکہ سیاستدان مسئلے حل کرتے ہےں، فوجی کی زندگی کا صرف ایک اصول ہوتا ہے‘ زندگی یا موت جبکہ سیاستدان جیو اور جینے دو کے فلسفے پر کاربند ہوتے ہیں، فوجی کو زندگی میں مر جاﺅ یا مار دو کی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ سیاستدان کو صلح، مذاکرات اور نرمی کی تربیت ملتی ہے چنانچہ میرا تجربہ ہے جس ملک میں حکومت اور سیاست فوج کے پاس ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا“۔
یہ لی کو آن یو کا وژن تھا‘ وہ ہر معاملے میں اتنے ہی کلیئر تھے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو لی کو آن یو نے سنگاپور میں چیونگم چبانے پر پابندی لگا دی تھی‘ یہ پابندی ”لٹرنگ لائ“کا حصہ تھی‘ اس قانون کے تحت سنگا پور میں چیونگم چبانا‘ کھلی جگہ پر تھوکنا اورواش روم کے استعمال کے بعد فلش نہ کرنا قانوناً جرم تھا ‘ یہ آج بھی جرم ہے‘ تھوکنا اور فلش نہ کرنا کئی ممالک میںجرم ہے لیکن جہاں تک چیونگم کا معاملہ ہے اس لحاظ سے سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ببل گم پر پابندی ہے‘ ملک میں چیونگم بیچنے والے کو دو ہزار 9سو 40ڈالر جرمانہ اور دو سال قید کی سزا ملتی ہے جبکہ چیونگم چبانے والے شخص کو پہلی بار پانچ سو ڈالر‘ دوسری بار ہزار ڈالر اور تیسری بار دو ہزار ڈالرز جرمانہ کیا جاتا ہے‘یہ پابندی اور یہ سزا جس قدر حیران کن ہے اس پابندی کی بیک گراﺅنڈ بھی اتنی ہی دلچسپ ہے‘ سنگا پور کی حکومت نے 1983ءمیںعوام کو سرکاری فلیٹس بنا کر دینا شروع کئے ‘ سنگاپور اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس کے 91فیصد لوگ ذاتی فلیٹس کے مالک ہیں‘ یہ تمام فلیٹس حکومت نے بنا کر دئیے‘سنگا پور میں سرکاری ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی 1983ءمیں شروع ہوا‘عوام کیلئے فلیٹس اور ٹرانسپورٹ کا سسٹم بنا تو لوگ سرکاری بسوں اور فلیٹس میں چیونگم پھینک جاتے تھے‘ اس سے بسوں کی سیٹیں‘ ہینڈل‘ لاکس اور فرش خراب ہو جاتے تھے جبکہ فلیٹس کے دروازے اور کمپلیکس کی لفٹس بھی چیونگم کی وجہ سے پھنس جاتی تھیں‘ سنگاپور نے 1987ءمیں پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو ریلوے بھی شروع کی‘ میٹرو میں بھی چیونگم نے گندگی اور مسائل پیدا کرنا شروع کر دئیے‘ لوگ ٹرین کے لاک میں چیونگم پھنسا دیتے تھے جس کی وجہ سے دروازے لاک ہو جاتے تھے اور یوںٹرینوں کا شیڈول خراب ہوتا تھا چنانچہ حکومت نے چیونگم پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا‘چیونگم پر پابندی کی تجویز 1991ءمیں سنگا پور کی پارلیمنٹ میں پیش ہوئی‘پارلیمنٹ میں اس پرپورا سال بحث ہوئی‘ پارلیمنٹ نے1992ءمیں اسے قانون کی شکل دے دی جس کے بعد سنگاپور میں چیونگم استعمال کرنا اور بیچنا دونوں جرم ہو گئے‘ اس قانون کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے‘ سنگا پور دو سال میں دنیا کا صاف ترین ملک کہلانے لگا‘ آپ کو یہ جان کریقینا حیرت ہو گی سنگا پور میں 1992ءسے کوئی شخص‘ خواہ اس کا تعلق سنگا پور سے ہو یا یہ غیر ملکی مہمان ہو اسے اس قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ پولیس چیونگم چبانے والے ہر شخص کوپکڑلیتی ہے‘ آپ اس معاملے میں سنگا پور حکومت کی حساسیت ملاحظہ کیجئے‘ سنگاپور میںاکتوبر 2009ءمیں انٹر پول کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کا فیصلہ ہوا توسنگاپور حکومت نے 186 ممالک کی حکومتوں کو خط لکھ دیاتھا ”سنگا پور میں چیونگم پر پابندی ہے لہٰذا کوئی مندوب چیونگم لے کر سنگا پور میں داخل نہ ہو“ سنگاپور حکومت کا یہ خط محض دھمکی یا وارننگ نہیں تھی بلکہ حکومت نے ائیرپورٹ پر 186 مہمانوں کے سامان کی تلاشی بھی لی ‘ سنگاپور میں 1992ءسے2015ءتک بے شمار لوگ چیونگم استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے‘ ان میں امریکا اور یورپ کے وزراءتک شامل تھے‘ سنگاپور کی حکومت نے نہ صرف ان لوگوں کو جرمانہ کیا بلکہ ان سے جرمانہ وصول بھی کیا۔سنگاپور کی حکومت اس قانون کے معاملے میں کس قدر سخت ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجئے‘ 1992ءمیں جب یہ قانون بن رہا تھا تو یورپ اور امریکا نے اسے انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قراردے دیا‘ بی بی سی نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”چیونگم پر پابندی تخلیق کاروں کے ساتھ زیادتی ہے‘ تخلیق کار عموماً تخلیقی کاموں کے دوران چیونگم چباتے ہیں اور اس پابندی سے سنگاپور کے تخلیق کاروں کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوں گی‘ ان لوگوں کو سوچنے میں دقت ہوگی“۔ بی بی سی کا یہ تبصرہ جب وزیراعظم لی کوآن یو تک پہنچا تو انہوں نے اس کا بڑاخوبصورت جواب دیا‘ وزیراعظم لی کو آن یو نے کہا ”جو شخص چیونگم کے بغیر نہیں سوچ سکتا اسے چاہیے وہ کیلا ٹرائی کرے کیونکہ کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کر تا ہے “۔
یہ تھے لی کو آن یو! کاش اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایک ایسا لیڈر عطا کر دے‘ ایک ایسا لیڈر جو قانون کو قانون بھی سمجھتا ہو اور اسے سپریم بھی قرار دیتا ہو۔
میاں نواز شریف 1999ءمیں سنگاپور کے دورے پر گئے‘ نواز شریف نے سرکاری مصروفیات کے بعد لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ”ٹپس“ لیناچاہتے تھے‘ سنگاپور کے وزیراعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کردی‘ نواز شریف نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہوگئے‘ یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاﺅس میں ہوئی‘ گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں‘ نواز شریف نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا ”کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا“ لی کو آن نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلادیا‘ ان کا رد عمل‘ سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا‘ حاضرین پریشان ہوگئے ‘ لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے”اس کی تین وجوہات ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے ” پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے، آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے‘ آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں“ وہ رکے اور ذرا دیر بعد بولے ”آپ خود خودفیصلہ کیجئے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں ‘وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟ دوسری وجہ‘ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا‘ میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے‘ میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا‘میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ‘ تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاﺅ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا‘ آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرادیں‘ میں اس کی صلح کرا دیتاتھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتاتھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا‘ وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا‘ میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے“ لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ”میرا تجربہ ہے جوقومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اور تیسری اورآخری وجہ فوج ہے‘ آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی اثر میں رہ کر ترقی کی ہو“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”فوجی اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ فوجی مسئلہ پیدا کرتا ہے جبکہ سیاستدان مسئلے حل کرتے ہےں، فوجی کی زندگی کا صرف ایک اصول ہوتا ہے‘ زندگی یا موت جبکہ سیاستدان جیو اور جینے دو کے فلسفے پر کاربند ہوتے ہیں، فوجی کو زندگی میں مر جاﺅ یا مار دو کی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ سیاستدان کو صلح، مذاکرات اور نرمی کی تربیت ملتی ہے چنانچہ میرا تجربہ ہے جس ملک میں حکومت اور سیاست فوج کے پاس ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا“۔
یہ لی کو آن یو کا وژن تھا‘ وہ ہر معاملے میں اتنے ہی کلیئر تھے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو لی کو آن یو نے سنگاپور میں چیونگم چبانے پر پابندی لگا دی تھی‘ یہ پابندی ”لٹرنگ لائ“کا حصہ تھی‘ اس قانون کے تحت سنگا پور میں چیونگم چبانا‘ کھلی جگہ پر تھوکنا اورواش روم کے استعمال کے بعد فلش نہ کرنا قانوناً جرم تھا ‘ یہ آج بھی جرم ہے‘ تھوکنا اور فلش نہ کرنا کئی ممالک میںجرم ہے لیکن جہاں تک چیونگم کا معاملہ ہے اس لحاظ سے سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ببل گم پر پابندی ہے‘ ملک میں چیونگم بیچنے والے کو دو ہزار 9سو 40ڈالر جرمانہ اور دو سال قید کی سزا ملتی ہے جبکہ چیونگم چبانے والے شخص کو پہلی بار پانچ سو ڈالر‘ دوسری بار ہزار ڈالر اور تیسری بار دو ہزار ڈالرز جرمانہ کیا جاتا ہے‘یہ پابندی اور یہ سزا جس قدر حیران کن ہے اس پابندی کی بیک گراﺅنڈ بھی اتنی ہی دلچسپ ہے‘ سنگا پور کی حکومت نے 1983ءمیںعوام کو سرکاری فلیٹس بنا کر دینا شروع کئے ‘ سنگاپور اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس کے 91فیصد لوگ ذاتی فلیٹس کے مالک ہیں‘ یہ تمام فلیٹس حکومت نے بنا کر دئیے‘سنگا پور میں سرکاری ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی 1983ءمیں شروع ہوا‘عوام کیلئے فلیٹس اور ٹرانسپورٹ کا سسٹم بنا تو لوگ سرکاری بسوں اور فلیٹس میں چیونگم پھینک جاتے تھے‘ اس سے بسوں کی سیٹیں‘ ہینڈل‘ لاکس اور فرش خراب ہو جاتے تھے جبکہ فلیٹس کے دروازے اور کمپلیکس کی لفٹس بھی چیونگم کی وجہ سے پھنس جاتی تھیں‘ سنگاپور نے 1987ءمیں پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو ریلوے بھی شروع کی‘ میٹرو میں بھی چیونگم نے گندگی اور مسائل پیدا کرنا شروع کر دئیے‘ لوگ ٹرین کے لاک میں چیونگم پھنسا دیتے تھے جس کی وجہ سے دروازے لاک ہو جاتے تھے اور یوںٹرینوں کا شیڈول خراب ہوتا تھا چنانچہ حکومت نے چیونگم پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا‘چیونگم پر پابندی کی تجویز 1991ءمیں سنگا پور کی پارلیمنٹ میں پیش ہوئی‘پارلیمنٹ میں اس پرپورا سال بحث ہوئی‘ پارلیمنٹ نے1992ءمیں اسے قانون کی شکل دے دی جس کے بعد سنگاپور میں چیونگم استعمال کرنا اور بیچنا دونوں جرم ہو گئے‘ اس قانون کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے‘ سنگا پور دو سال میں دنیا کا صاف ترین ملک کہلانے لگا‘ آپ کو یہ جان کریقینا حیرت ہو گی سنگا پور میں 1992ءسے کوئی شخص‘ خواہ اس کا تعلق سنگا پور سے ہو یا یہ غیر ملکی مہمان ہو اسے اس قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ پولیس چیونگم چبانے والے ہر شخص کوپکڑلیتی ہے‘ آپ اس معاملے میں سنگا پور حکومت کی حساسیت ملاحظہ کیجئے‘ سنگاپور میںاکتوبر 2009ءمیں انٹر پول کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کا فیصلہ ہوا توسنگاپور حکومت نے 186 ممالک کی حکومتوں کو خط لکھ دیاتھا ”سنگا پور میں چیونگم پر پابندی ہے لہٰذا کوئی مندوب چیونگم لے کر سنگا پور میں داخل نہ ہو“ سنگاپور حکومت کا یہ خط محض دھمکی یا وارننگ نہیں تھی بلکہ حکومت نے ائیرپورٹ پر 186 مہمانوں کے سامان کی تلاشی بھی لی ‘ سنگاپور میں 1992ءسے2015ءتک بے شمار لوگ چیونگم استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے‘ ان میں امریکا اور یورپ کے وزراءتک شامل تھے‘ سنگاپور کی حکومت نے نہ صرف ان لوگوں کو جرمانہ کیا بلکہ ان سے جرمانہ وصول بھی کیا۔سنگاپور کی حکومت اس قانون کے معاملے میں کس قدر سخت ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجئے‘ 1992ءمیں جب یہ قانون بن رہا تھا تو یورپ اور امریکا نے اسے انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قراردے دیا‘ بی بی سی نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”چیونگم پر پابندی تخلیق کاروں کے ساتھ زیادتی ہے‘ تخلیق کار عموماً تخلیقی کاموں کے دوران چیونگم چباتے ہیں اور اس پابندی سے سنگاپور کے تخلیق کاروں کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوں گی‘ ان لوگوں کو سوچنے میں دقت ہوگی“۔ بی بی سی کا یہ تبصرہ جب وزیراعظم لی کوآن یو تک پہنچا تو انہوں نے اس کا بڑاخوبصورت جواب دیا‘ وزیراعظم لی کو آن یو نے کہا ”جو شخص چیونگم کے بغیر نہیں سوچ سکتا اسے چاہیے وہ کیلا ٹرائی کرے کیونکہ کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کر تا ہے “۔
یہ تھے لی کو آن یو! کاش اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایک ایسا لیڈر عطا کر دے‘ ایک ایسا لیڈر جو قانون کو قانون بھی سمجھتا ہو اور اسے سپریم بھی قرار دیتا ہو۔