دنیا میں کسی چیز کو سکوت نہیں ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔ فوٹو: فائل
جیسے سمے کا دھارا بہتا چلا جا رہا ہے، اسی طرح دنیا میں کسی چیز کو سکوت نہیں ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔۔۔۔۔۔۔ ابتدائے آفرینش سے تبدیلی کا یہ عمل جاری ہے۔ خیروشر کی قوتوں کا ٹکرائو ہے، تو ساتھ طاقت وَر اور مظلوم کا تصادم بھی رواں ہے۔۔۔
نہ سمٹنے والی خواہشات جب اختیار اور طاقت کے ساتھ یک جا ہونے لگتی ہیں تو خلق خدا پابندیوں کے شکنجے میں جکڑی جاتی ہے۔ دوسروں کی خواہشوں کا نہ ختم ہونے والا سمندر ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل مشکل بنا دیتا ہے اور وہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر جیون گزار دیتے ہیں۔ مگر ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا، کبھی کہیں کوئی اَن ہونی بھی ہو جاتی ہے، جو ظالم کا ہاتھ پکڑکر جھٹک دیتی ہے۔۔۔ اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ بھی اسی طرح کا ایک انسان ہے۔۔۔ کسی کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق اس فرد کے سوا کسی کو نہیں۔ یوں طاقت کے بتوں کے مسمار کیے جانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جسے انقلاب کا نام دیا جاتا ہے اور جس کے اگلے سرے پر آزادی کی نعمت موجود ہوتی ہے۔۔۔ لیکن ان سب کے بیچ ایک طویل صبرآزما جدوجہد، اتحاد، کٹھن قربانیوں کا راستہ ہوتا ہے۔ تب کہیں جاکر یہ انقلاب برپا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ضروری نہیں کہ اس تبدیلی کا ثمر فوراً ہی مل جائے، بعض اوقات چیزوں کے اپنی جگہ واپس آنے میں بھی مزید کئی برس بیت جاتے ہیں۔
دنیا کے چار بڑے انقلابی معرکوں فرانس، روس، چین اور ایران کا جائزہ لیں، تو ان سب ہی میں ہمیں یہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ یہ ایک انتہائی خوں ریز اور سخت ترین ردعمل کا نام ہے۔ کبھی یہ خانہ جنگی سے شروع ہوتا ہے اور کبھی خانہ جنگی سے گزرتا ہے۔ کتنے لوگوں کو اپنی جانیں دینا پڑتی ہیں، تب آنے والی نسلیں اس آزادی سے بہرہ وَر ہو پاتی ہیں، جس کے لیے ان کے بڑوں نے خواب بنے ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی نصف صدی سے انقلاب کا نعرہ سب سے زیادہ کشش کا حامل ہے۔ مختلف الخیال گروہ اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نظریات کے انقلاب کی نہ صرف داعی رہی ہیں، بل کہ ان کے عنقریب برپا ہونے کی نوید بھی دیتی رہیں۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو برصغیر پاک وہند میں اس طرح کے کسی انقلاب کی نظیر نہیں ملتی، جس کے پیچھے خلق خدا کی بھر پور رضا ورغبت شامل ہو۔
1947 میں پاکستان کا بننا کسی حد تک انقلاب کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جدوجہد کی، اسی طرح 1971میں سقوط مشرقی پاکستان کو بھی ہم اسی کی ایک نظیر قرار دے سکتے ہیں، کیوں کہ مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے میں وہاں کے عوام کی بھر پور رائے شامل تھی۔ اس کے علاوہ پوری تاریخ میں اقتدار کی جنگ بہتیری ہوتی رہیں، لیکن ایسا کوئی معرکہ درپیش نہ ہوا جس کا مقصد فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو۔ یہاں دنیا کے مشہور ترین انقلابوں کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
انقلاب فرانس 1789
برطانیہ کی مخاصمت میں فرانس نے امریکا کی جنگ آزادی کی دل کھول کر اعانت کی۔ 1774 میں امریکا تو برطانوی چنگل سے نکل گیا، لیکن یہ تحریک براہ راست فرانس کے اندر تبدیلی کا پیش خیمہ بن گئی۔ مقتدر اشرافیہ اور کلیسا کا گٹھ جوڑ عوام کا استحصال کر رہا تھا۔ بڑی بڑی اور زرخیز زمینیں امراء واہل کلیسا کے قبضے میں تھیں، ان سے کثیر آمدنی کے باوجود وہ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے، جب کہ عام کاشت کاروں پر محاصل کا شدید بار تھا۔
یہ لوگ اگر اپنے مکان یا کھیت کو ذرا بھی درست کرالیتے، تو ان کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا جاتا۔ ٹیکس سے مستثنیٰ امراء کاشت کاروں سے بیگار بھی لیتے تھے۔ عوام کے لیے قید و بند کی سختیوں کا یہ عالم تھا کہ ’’پروانۂ گرفتاری‘‘ پر کسی کا نام، قید خانہ اور مدت قید لکھ کر پولیس کے حوالے کردیا جاتا اور کوئی وجہ بتائے بغیر اسے حراست میں لے لیا جاتا۔ املاک کی ضبطی عام تھی، غریب کے لیے انصاف کے دروازے بھی بند تھے۔
اِدھر جنگ آزادی میں امریکا کی مالی مدد کے چکر میں فرانس کا اپنا خزانہ خالی ہوگیا تھا۔ بادشاہ لوئی شازدہم اور اس کی حکومت سرکاری خزانے کے دیوالیہ پن کو دور کرنے سے قاصر رہی۔ اس جنگ کا ایک اور اثر یہ بھی ہوا کہ امریکا سے واپس آئے ہوئے فرانسیسی سپاہیوں نے دیہی طبقے کو جمہوریت، مساوات وغیرہ کے نظریات سے روشناس کرایا۔ شہری طبقہ روسو اور والٹیئر جیسے ادیبوں اور مفکروں کی بدولت ان نظریات سے پہلے ہی متعارف تھا۔
اقتصادی بد حالی بڑھی، تو فروری 1787 میں تجویز کیا گیا کہ مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام پر محصول عاید کیا جائے، لیکن عوام کے بگڑتے تیور دیکھتے ہوئے ’’اسٹیٹس جنرل‘‘ طلب کرنے کا مطالبہ ہونے لگا۔ اس ایوان کا گزشتہ اجلاس 1614 کے بعد سے اب تک نہیں بلایا گیا تھا۔ ایسے میں 1788 کے شدید قحط نے مالی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔
5 مئی 1789 کو نئے ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری خزانے کو پُر کرنے کے لیے ’’اسٹیٹس جنرل‘‘ کا اجلاس طلب کیا گیا۔ یہ پارلیمان تین حصوں یا طبقوں پر مشتمل تھا۔ امرا، کلیسا اور تیسرا حصہ عوام کا نمائندہ تھا۔ کلیسا ایک فی صد، امرا دو فی صد جب کہ تیسرا حصہ 97 فی صد عوام کے نمائندے تھے۔ عوام کا نمائندہ حصہ، پہلے دو کے مقابلے میں خاصا دبا دبا رہتا تھا، لیکن پانچ مئی کو ان کے تلخ لہجے بولنے لگے۔ امریکا اور برطانوی دارالعوام کی مثالیں دی گئیں کہ اب کسی ٹیکس کا نفاذ نہ کیا جائے۔ اس ایوان میں ہر طبقے کو ایک ووٹ تصور کیا جاتا تھا، اسی بنا پر تیسرے طبقے نے مطالبہ کیا کہ تینوں طبقے ایک ایوان کی شکل میں یک جا کریں۔
بادشاہ نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا، لیکن جون 1789 میں تیسرے طبقے نے اپنا نام قومی اسمبلی رکھ لیا اور جب انہیں روکا گیا، تو وہ پارلیمان کے باہر ایک ٹینس کورٹ میں ٹھہر گئے اور خود کو ’’قومی اسمبلی‘‘ قرار دیا۔ اس موقع پر انہوں نے عوام کے حقوق کے پاس دار رہنے کا حلف اٹھایا۔ طاقت کے زور پر انہیں وہاں سے ہٹانے کا حکم ہوا، تو سپاہیوں نے انکار کر دیا۔ پارلیمان میں کلیسا اور امرا نے باہر بیٹھے لوگوں کو کچلنے کی قرارداد منظور کی۔ پولیس اور فوج کے انکار کے بعد 13 جولائی 1789 کو غیر ملکی سپاہیوں کی مدد سے انہیں تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد منتشر کردیا اور بیسٹل (Bastille) کے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ اشرافیہ مطمئن ہوگئی، مگر مسئلہ ابھی تو شروع ہوا تھا۔
اگلے دن 14 جولائی کو ایک بے قابو ہجوم نے بیسٹل کا وہ قید خانہ منہدم کر ڈالا، جہاں ٹینس کورٹ میں قائم کی جانے والی قومی اسمبلی کے اراکین کو مقید کر رکھا تھا۔ مشتعل ہجوم نے زنداں کے قفل توڑے اور قیدیوں کی زنجیریں کاٹ ڈالیں۔ اب بیسٹل کے قیدخانے کا اسلحہ بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔
بیسٹل کے قیدخانے کے انہدام نے بادشاہت پر کاری ضرب لگائی، ایک طرف شہروں میں امراء من مانی کرنے لگے، تو دوسری طرف دیہی علاقوں میں بھی 4 اگست 1789کو بغاوت پھوٹ پڑی۔ بغاوت کے بعد مراعات کے وعدے کیے جانے لگے، جو بے سود ثابت ہوئے۔ بادشاہ اور ملکہ کو ملک سے فرار ہونے کی ترغیب دی گئی۔ جب جون 1791 میں وہ ملازم کا بھیس بدل کر فرار ہونے لگے تو عوام نے انھیں دھرلیا۔
آخرکار عوام کی قومی اسمبلی کا تیار کردہ جدید جمہوری دستور نافذ کردیا گیا۔ ستمبر 1791ء تک نظر بند رہنے کے بعد بادشاہ کو اس کے منصب پر بحال کر دیا گیا۔ تاہم 10 اگست 1792کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کر دیا اور بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کرلیا گیا۔ اس کے بعد عوام کی عدالتیں لگنے لگیں اور ہر اس شخص کا سر قلم کیا جانے لگا، جس کے ہاتھ نرم ہوتے یا کالر صاف ہوتا، کیوں کہ یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ محنت کش نہیں اور سماج کے استحصال کرنے والے قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔
آخری عدالت 16 جنوری 1793 کو لگی، جس نے بادشاہ لوئی شازدہم کی گردن اڑانے کا حکم دیا۔ 21 جنوری 1793کو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 16 اکتوبر 1793 کو ملکہ فرانس کو بھی ’’عوامی عدالت‘‘ نے موت کی سزا سنا دی۔ ایک اندازے کے مطابق 1793 سے 1794 کے درمیان 40 ہزار افراد کا قتل ہوا۔ 8 جون 1795 کو ولی عہد بھی مارا گیا۔ اس کے بعد بھی 15 برس تک یہ خوں ریزی وقفے وقفے سے جاری رہی۔ مئی 1804کو اس انقلاب نے نپولین بونا پارٹ کے اقتدار کی صورت میں خود کو مستحکم کیا اور جدید فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
روس کا سُرخ انقلاب1917ء
’’ہم غریب ہیں۔۔۔ مظلوم ہیں، ہم سے بے انتہا مشقت لی جاتی ہے۔ ہماری توہین کی جاتی ہے اور اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ زندگی سے موت بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ہم میں اب صبر اور برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ ہم اپنی ضروریات بیان کرنے سے روکے جاتے ہیں۔ ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو ہماری محنت کا معاوضہ دیا جائے۔۔۔ ہم بیمار ہوں، تو ہم کو طبی امداد ملے، لیکن زمیں دار کہتے ہیں کہ یہ مطالبے خلاف قانون ہیں۔ ہماری ہر استدعا جرم ہے۔
ہم دیکھنے میں تو انسان معلوم ہوتے ہیں، لیکن ہمیں انسانوں کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ہم کو سوچنے، آپس میں ملنے جلنے اور اپنی حالت بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی اجازت نہیں۔ ہم میں سے اگر کوئی اپنا حق طلب کرتا ہے، تو اس کو قید یا جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔۔۔ ہم سے ہم دردی کرنے والا مجرم سمجھا جاتا ہے۔
بادشاہ معظم! کیا صرف امیروں، جاگیرداروں اور عہدے داروں ہی کو زندہ رہنے کا حق ہے؟ ہم آپ کے حضور فریاد لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی ہمارا آخری سہارا ہیں۔ ہماری حفاظت کیجیے۔ ہم کو ظلم، افلاس، جہالت، ذلت اور مصیبت سے نجات دلائیے۔‘‘
بیسیوں صدی کے آغاز پر روس کی سرزمین پر خلق خدا کی حالت زار ان لفظوں سے بہ خوبی عیاں ہوتی ہے، جو رحم دلی کی آس پر کسی بھلے مانس غلام نے 1905ء میں اپنے حکم راں کے نام لکھا تھا۔
یہ بیسویں صدی کا آغاز تھا۔۔۔ کہنے کو غلامی کے زمانے لد گئے تھے، مگر سرزمینِ روس پر نہیں، حالات وہی، جو انقلاب سے پہلے استحصالی قوتوں کی جانب سے روا رکھے جاتے ہیں، عروج پر تھے۔ زندگی صرف انہی مخدوموں کی تھی اور عام آدمی کا جینا فقط ان کی خدمت گزاری ہی تھی۔
1881ء میں روس میں پہلے مارکسی گروپ کا قیام عمل میں آ ہی چکا تھا۔ ظلم کے خلاف احتجاج صرف حکم رانوں کے نام عرضیوں تک محدود نہ رہا، اب حکومت میں حصہ دینے کی مانگ کی جا رہی تھی۔ اس سے بڑا بھی انقلاب ہو سکتا تھا کہ اب تک جو فقط جواب دہ تھے، وہ جواب لینے والوں سے جواب دہی کے طالب تھے۔ قانونی اور انسانی حقوق سے لے کر زمین کو رفتہ رفتہ کاشت کاروں کی ملکیت بنا دینے کا مطالبہ۔۔۔ بس، بس۔۔۔! زمینی خدائوں کی قوت برداشت انہیں سننے کی بھی تاب نہ رکھتی تھی۔
اس اظہار کی قیمت انہی کے لہو سے ادا ہونا شروع ہوئی۔۔۔ مگر یہ بھول ہے کہ لاٹھی اور ڈنڈے سے کسی کی آواز دبائی جا سکتی ہے۔ اشتعال بڑھا اور سرکشی پھیلتی چلی گئی۔ 1905ء میں میں حکومت کے خلاف اس بغاوت میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ’’زار‘‘ (روس کے بادشاہوں کا خطاب) پر حملہ ہوا۔ بغاوت تو ناکام ہوئی، مگر اپنے اثرات چھوڑ گئی۔ اسی کے بعد مشاورتی جماعت ’’ڈوما‘‘ قائم کی گئی، جس کے لیے حق انتخاب بھی 1906ء میں دے دیا گیا، مگر ’’ڈوما‘‘ نے جب حقوق مانگے، تو برخاست کر دی گئی اور یوں بہت سی ’’ڈومائیں‘‘ بنتی اور بکھرتی رہیں۔
پھر پہلی عالم گیر جنگ ) 1914ء تا 1918ء( چھڑگئی، روس اب مستحکم نہ رہا تھا، اس جنگ میں شرکت نے اس کے حالات ابتر بنا دیے۔ بغاوت پھیلتی چلی گئی، ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ ڈوما اور مزدوروں نے ’’زار‘‘ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ فوج بھی زار کے حکم سے منہ پھیر گئی۔ نتیجتاً مارچ 1917ء میں زار کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا۔ اس کے بعد’’لوخوف‘‘ نے عارضی حکومت قائم کی۔
سیاسی قیدی رہا کیے گئے۔ اظہار خیال کی آزادی دی گئی۔ مزدوروں کے حقوق تسلیم کیے گئے اور ایک ’’مجلس دستور ساز‘‘ کے انتخاب کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد عالمی جنگ کے معاملے پر لوخوف مستعفی ہوگیا۔ اس کے بعد اشتراکی انقلابی جماعت کا قائد الیگزانڈر کیرانسکی صدر منتخب ہوا۔ وہ مزدوروں اور کاشت کاروں کے مطالبات کا حامی تھا اور اسے روس کا نجات دہندہ تصور کیا جانے لگا، لیکن وہ بھی جنگ جاری رکھنا چاہتا تھا۔
اس دوران لینن اور ٹراٹسکی کی انقلابی تحریک مقبول عام ہونے لگی اور انہوں نے اکتوبر 1917 میں انقلاب برپا کر دیا۔ ہر طرف بدامنی تھی۔ اسی حالت میں مجلس دستور ساز طلب کی گئی، لیکن اس میں بالشویک اقلیت میں تھے۔ اس لیے لینن نے زبردستی اس کو منتشر کر دیا اور اپنے لائحہ عمل کے مطابق حکومت کرنے لگا۔ مارچ 1918ء میں جرمنی سے معاہدہ کرکے جنگ ختم کردی۔ جولائی 1918ء میں زار اور شاہی خاندان کے افراد کو گولی مار دی گئی۔
لینن نے یہ اعلان کیا تھا کہ روس کے بالشویکی دوسرے ممالک میں بھی کمیونسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اس اعلان سے بڑی طاقتیں بالشویکوں کی مخالف ہوگئیں، اور ان کے مخالف عناصر کو مدد دینے لگیں۔ نتیجتاً روس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی، جس میں ایک لاکھ سے زاید افراد ہلا ک ہوئے۔ یہ جنگ 1921ء تک جاری رہی۔ آخرکار بالشویک فتح یاب ہوئے۔
اس زمانے میں بالشویکوں نے جنگی کمیونزم کے نام سے بڑے سخت اصول اختیار کیے۔ تمام پیداوار، معاشی وسائل، ذاتی املاک، خارجی تجارت اور کاروباری ادارے اجتماعی یا حکومت کی ملکیت قبضہ کر لیا۔ اس دور میں ہونے والے تشدد کے نتائج بہت خراب نکلے اور آخرکار لینن نے اپنے کمیونسٹ لائحہ عمل کو نافذ کرنے کے لیے نئی معاشی پالیسی اختیار کی۔ کاشت کاروں کو پیداوار کا ایک حصہ فروخت کرنے اور تاجروں کو چھوٹی چھوٹی دکانیں رکھنے کی اجازت دی گئی، لیکن بڑی صنعتوں، بینکوں اور خارجی تجارت حکومت کے کنٹرول میں رہی۔
ایرانی شہنشاہیت کا اختتام، 1979ء
1924 ء میں دوبارہ قوت حاصل کرنے کے بعد ایران پر اب پہلوی خاندان کا تسلط تھا۔ پھر 1953ء آیا اور شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے حامی جرنیلوں نے قوم پرست وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کی پارٹی کے ہزاروں ارکان کو تہ تیغ کرڈالا۔ دراصل شہنشاہ نے اپنی آزادی مغربی اقوام کے گروی رکھی ہوئی تھی، اسے محمد مصدق کے آزادانہ فیصلے کسی طور ہضم نہ ہوتے تھے، لہٰذا عہدے سے برخاستگی اُن کا مقدر بنی، مگر ایرانی سیاست میں شاہ مخالف عنصر کی حیثیت سے اپنا ایک اثر چھوڑ گئی۔
پھر 28 اکتوبر 1964ء کا دن آتا ہے۔ شہنشاہ ایران نے ایک قانون کے ذریعے امریکی فوجی مشن کو سفارت کاروں کے ہم پلہ وہ حقوق دے دیے جاتے ہیں، جو ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو حاصل ہیں۔ یعنی ان پر ایرانی قانون لاگو نہ ہوگا۔ اگلے دن مذہبی راہ نما آیت اﷲ خمینی نے ’’قم‘‘ میں تقریر کرتے ہوئے کہا،’’اس شخص نے ہمیں بیچ ڈالا، ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا ڈالی ہے۔ اہل ایران کا درجہ امریکی کتے سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔
اگر شاہ ایران کی گاڑی کسی امریکی کتے سے ٹکرا جائے، تو شاہ کو تفتیش کا سامنا ہوگا، لیکن کوئی امریکی خانساماں شاہ ایران یا اعلیٰ ترین عہدے داروں کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالے، تو ہم بے بس ہوں گے آخر کیوں؟ کیوں کہ ان کو امریکی قرضے کی ضرورت ہے۔ اے نجف، قم، مشہد، تہران اور شیراز کے لوگو! میں تمہیں خبردار کرتا ہوں، یہ غلامی مت قبول کرو! کیا تم چپ رہوگے اور کچھ نہ کہو گے؟ کیا ہمارا سودا کردیا جائے اور ہم زبان نہ کھولیں۔‘‘
شاہ ایران کے منظور کردہ قانون کے خلاف احتجاج کی لہر کے دوران آیت اﷲ خمینی کو گرفتار کرکے فرانس جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال فرانس میں قیام کے بعد عراق چلے گئے۔
ادھر شاہ ایران اپنے مسند اقتدار پر نازاں ہے۔ وہ 1971ء میں ایران میں شہنشاہیت کے ڈھائی ہزار سالہ جشن کا اہتمام کرتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق 100 ملین امریکی ڈالر اس جشن کی نذر کر دیے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں حالت یہ ہے کہ تمام دفاعی ٹھیکے اور تیل کی تجارت امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ شاہی خاندان کا لوٹ کھسوٹ سے جمع کیا گیا پیسہ مغربی بینکوں میں محفوظ، جب کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ عملاً ایران امریکا کی کالونی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف شاہ کے آمرانہ فیصلوں کے خلاف آیت اﷲ خمینی اپنے ہم وطنوں کی راہ نمائی جاری رکھتے ہیں۔
شاہ کی حکومت چوکنّا ہوجاتی ہے اور دبائو ڈال کر خمینی پر عراق کی سرزمین تنگ کردی جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ 6 اکتوبر 1978ء کو دوبارہ فرانس میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں ؔاور اپنی تحریک کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں ایران میں شاہ کی مخالفت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ رضا شاہ اقتدار پر اپنی ڈھیلی پڑتی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مارشل لا کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود 8 ستمبر 1978ء کو شاہ کی مخالف میں ہزاروں افراد تہران میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مظاہرین اور سرکاری اہل کاروں کے درمیان خوں ریز تصادم کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں، تاہم تہران حکومت محض 86 ہلاکتوں کی ہی تصدیق کرتی ہے۔
ایرانی عوام کے بڑھتے ہوئے احتجاج کے باعث شاہ کے لیے حالات بدستور بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ چناں چہ 17 جنوری 1979ء کو شاہ رضا شاہ پہلوی ملک سے چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد آیت اﷲ خمینی یکم فروری 1979ء کو 16 سالہ جلاوطنی کے بعد تہران لوٹ آتے ہیں۔ ہوائی اڈے پر لاکھوں افراد کا استقبال غیراعلانیہ طور پر انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور شاہ کے خلاف باغیانہ روش ملک بھر میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔ آیت اﷲ خمینی کے کارکنان سرکاری عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کرتے چلے جاتے ہیں۔
سرکاری فوج عوام کے خلاف کسی بھی کارروائی سے انکار کردیتی ہے۔ شاہانہ جاہ و جلال رکھنے والے رضا شاہ پہلوی کی نام زَد حکومت کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح بکھر کر رہ جاتی ہے اور خلق خدا کا سمندر آمرانہ اور شخصی حاکمیت کو ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ ہزار جتن کرنے کے باوجود رضا شاہ پہلوی کو اقتدار سے رسوا کن انداز میں ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور اکیسویں صدی سے محض دو عشروں قبل اپنی نوعیت کا یہ منفرد انقلاب مکمل ہوجاتا ہے۔ ایران کو اسلامی جمہوری مملکت قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کی خودداری اور خود مختاری کا دور شروع ہوتا ہے۔
گراں خواب چینیوں کی بیداری، 1949ء