کالی مرچ کے نخرے تو دیکھیں۔۔۔ کالی ہے پھر بھی 3800 سو روپے کلو ہے، اگر گوری ہوتی تو۔۔۔ ؟
کالی مرچ وہ مسالا جس کی تلاش میں انڈیا یورپ والوں کے ہاتھ آ گیا تھا۔ کالی مرچ ہمارے پسندیدہ اور مزیدار کھانوں میں اکثر استعمال ہوتی ہے. شاید بعض لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کہاں سے آتی ہے اور کس طرح پیدا ہوتی اور کس طرح تیار کی جاتی ہے؟ لیکن کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس مسالے کی کشش یورپی قوموں کو انڈیا کھینچ لائی تھی اور بالآخر وہ ہمارے حاکم بن بیٹھے تھے؟
آج کل کالی مرچ اکثر گھروں کے باورچی خانوں میں پائی جاتی ہے اور یہ اتنی آسانی سے دستیاب ہے کہ ہم اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ البتہ کسی زمانے میں یہ اتنی قیمتی تھی کہ اسے کالا سونا کہا جاتا تھا اور مہمانوں کے لیے تیار کردہ کھانوں میں کالی مرچ کا استعمال میزبان کی دولت اور طاقت کا بلا انکار ثبوت تسلیم کیا جاتا تھا۔
یورپ میں اس قیمتی اور نایاب مسالے کی ہر کسی کو تلاش تھی۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں پیدا ہوتا ہے اور اسے کیسے تیار کیا جاتا ہے؟ اس کے متعلق وہاں کئی بے بنیاد کہاوتیں مشہور تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اڑنے والے انتہائی زہریلے سانپ کالی مرچ کے جنگلوں کی رکھوالی کرتے ہیں اور مقامی لوگ جنگلات کو آگ لگا کر ان سانپوں کو عارضی طور پر بھگانے کے بعد اس مسالے کو حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا رنگ کالا ہوتا ہے اور اس میں آگ کا ذائقہ پایا جاتا ہے۔
کالی مرچ کا مقام پیدائش انڈیا میں کیرلا کے علاقے میں ہے جہاں یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے۔ یہاں کے لوگ ہزاروں سالوں سے ان بیریوں کو چن کر ان سے مسالہ تیار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی صدیوں تک یورپ میں بیچنے اور اس سے بے شمار دولت کمانے والے صرف عرب تاجر تھے کیونکہ اس علاقے کا راستہ صرف وہی جانتے تھے اور وہ اپنے گاہکوں تک اس راز کو پہنچنے نہیں دے رہے تھے اور اوپر سے اس راز کو محفوظ رکھنے میں یورپی لوگوں کی بے بنیاد کہاوتیں بھی ان تاجروں کے لیے مدد گار ثابت ہو رہی تھیں۔ اس طرح انہیں اس مسالے کی تجارت پر مکمل تسلط حاصل تھا لیکن اس کے ختم ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں تھا۔
یہ درختوں پر چڑھی ایک بيل پر سبز بیری کی صورت میں لگتی ہے۔ تین دن کے لیے سبز بیریوں کو دھوپ میں سُکھا کر کالی مرچ تیار جاتی ہے۔
اس مسالے کا یورپ میں استعمال رومن دور میں شروع ہوا تھا البتہ پندرویں صدی عیسوی کے دوران یورپی امیر گھروں کے کھانوں کے علاوہ کالی مرچ کا استعمال 'کالی موت' یا طاعون کے علاج کے لیے بھی شروع ہوگیا جس کے پھیلنے سے وہاں لوگ بڑی تعداد میں مر رہے تھے۔ اس قیمتی مال کی سخت ضرورت اور شدید مانگ کی وجہ سے 8 جولائی 1497 میں پرتگال نے اپنے سب سے اعلا سمندری جہازراں واسکوڈے گاما (Vasco da Gama) کو کالی مرچ کے مَنبع کو تلاش کرنے کی مہم پر روانہ کیا۔ گاما کا فلاٹیلا مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے سمندری ہواؤں کی مدد سے افریقی ساحلوں کے کٹھن بحری راستے سے مئی 1498 میں انڈیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح اسے یورپ میں سب سے پہلے انڈیا تک سمندری راستہ تلاش کرنے کا مقام بھی حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ گاما کے اس کارنامے سے پرتگال کا جیک پاٹ نکل آیا تھا۔
گاما انڈیا پہنچنے سے پہلے یہاں بے دین جنگلی وحشی دیکھنے کی امید لگائے بیٹھا تھا جو بيکار یورپی اشیا کے بدلے اپنا کالا سونا بخوشی اس کے حوالے کر دیں گے۔ جب گاما کیرلا کے شہر Kochi کوچی پہنچا تو اس کے بالکل برعکس لوگوں کو sophisticated اور بہت دولت مند پایا۔ دور دور سے عرب، چینی اور کئی دوسرے تاجر صدیوں سے اس ہر دیسی یا cosmopolitan مرکز پر تجارت کے لیے آ رہے تھے۔ پندرہیویں صدی میں کیرلا کے لیے کالی مرچ وہی مالی مقام رکھتی تھی جو آج کل گلف کی ریاستوں ے لیے تیل رکھتا ہے۔
گاما کے کیرلا میں آنے کے آٹھ سال کے اندر ہی پرتگال نے اس علاقے میں اپنے قدم اچھی طرح سے جما لیے تھے۔ انہوں نے یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کر لیا تھا جہاں انہوں نے انڈیا میں اپنے پہلے وائسرائے کو قیام دیا۔ سولھویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی پرتگالی مسالوں کی تجارت میں سب سے آگے نکل چکے تھے اور جو مال وہ تجارت سے حاصل نہیں کر سکتے تھے، اپنی طاقت سے چھین لیتے تھے۔ کالی مرچ کی خاطر پرتگال نے انڈیا کے مسالے والے ساحلی علاقوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا۔
ایک مرتبہ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ انڈیا میں کالی مرچ کی تجارت اب ان کے مکمل قابو میں ہے تو انہوں نے اپنی توجہ دوسرے مسالوں کو ڈھونڈنے کی طرف کر دی۔ ان کی تلاش کے لیے اگلا مسالہ دار چینی تھا جو سولھویں صدی کے یورپی امیر لوگوں میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کالی مرچ سے بھی زیادہ نایاب تھا اور اس کا منبع بھی ان کے لیے نامعلوم تھا۔
کیرلا کے آس پاس کے سمندر میں عرب تجارتی جہازوں پر مسلسل چھاپوں میں انہیں بار بار ان پر لدے مال میں دار چینی مل رہی تھی اس لیے انہیں شک تھا کہ یہ مسالہ کہیں آس پاس ہی پایا جاتا ہے لیکن کیرلا کے سمندر سے آگے کے علاقے سے وہ بالکل ناواقف تھے۔ 1506 میں پرتگالی ایک عربی جہاز کا پیچھا کرتے ہوئے طوفان میں راستہ بھٹک گئے اور انہوں ایک انجان ساحل پر پناہ لی۔ یہ سری لنکا کا ساحل تھا اور دار چینی یہاں ہی پائی جاتی تھی اور یوں انہیں دار چینی کا منبع بھی مل گیا۔
کالی مرچ اور دار چینی جیسے مسالے دینا بھر میں کھانے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیوں کے باعث بنے ہیں اور آج بھی مقبول ہیں لیکن ان کی تلاش نہ صرف ہماری تاریخ کا رخ بدلنے کا باعث بنی بلکہ اس نے جدید دینا کی شکل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان مسالوں کی مدد سے شہنشاہی سلطنتیں بنیں اور ٹوٹیں، ان کی خاطر قوموں کی آزادی چھن گئی اور قتل و غارت میں بے شمار انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔
کالی مرچ اور دار چینی دو معمولی سے مسالے اور ایک غیر معمولی ماضی کے مالک ہیں جن کی تلاش سے یورپی لوگوں کے دولت سے خزانے بھر گئے لیکن جن لوگوں نے انہیں اپنی محنت سے بنایا ان کو اور ان کی قوم کو اس کے بدلے میں کیا حاصل ہوا؟
کالی مرچ کے فوائد:
کالی مرچ کے پانچ دانے روز کھائیے اور کمال دیکھیے۔
اعضائے رئیسہ، جگر اور دماغ کو تقویت دیتی ہے دمہ و کھانسی زکام اور بدہضمی میں نہایت مفید ہے,ل۔ کالی مرچ میں غذائی فوائد کے ساتھ ساتھ قدرت نے شفائی خصوصیات بھی رکھی ہیں اپنی شفائی خصوصیات کی بنا پر 70 سے زیادہ داخلی اور خارجی امراض میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔
کالی مرچ ہمارے ملک میں کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔ اکثر کھانوں میں اسے لازمی جز قرار دیا جاتا ہے اس کو فلفل اسود یا فِلفل سیاہ بھی کہا جاتا ہے۔ کالی مرچ گرم مسالے کا ایک لازمی جز ہے۔ یہ ریاح کو خارج کرتی ہے، ورم کو گھلاتی اور بلغم کی اصلاح کرتی ہے۔ یہ حافظے اور اعصاب کو بھی تقویت بخشتی ہے۔
اگر اس کا چھلکا اتار دیا جائے تو یہ سفید مرچ بن جاتی ہے. چھلکا اتارنے کے لیے کالی مرچ کو پانی میں بھگو کر رکھتے ہیں جب چھلکا نرم ہو جاتا ہے تو کپڑے سے رگڑ کر چھلکا اتار دیتے ہیں۔ تقریباً تمام بادی کھانوں مثلاً کچی سبزیوں ، ککڑی ، کھیرا وغیرہ میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا بہت زیادہ استعمال صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا کیونکہ اس کے زیادہ استعمال سے معدے کا السر ہو سکتا ہے۔
یہ غذ ا کو بخوبی ہضم کر دیتی ہے اور کھانے میں بے حد لذیذ ہوتی ہے اس کے علاوہ پیٹ کے درد اور بھوک نہ لگنے کی شکایت کے لیے بے حد مفید شے ہے۔ قوت بصارت میں اضافے کے لیے گھی اور شکر کے ساتھ کھلایا جاتا ہے۔ کالی مرچ 150 گرام ، شکر 30 گرام تک میں چمکنی (ایک بوٹی) پیس کر شامل کر لی جائے، پانچ گرام سفوف ایک کپ میٹھے دودھ کے ساتھ صبح نہار منہ کھا لیا جائے اور ایک گھنٹے تک پانی نہ پیا جائے۔ کالی مرچ کا یہ مرکب نہ صرف دماغی امراض بلکہ دوسری سرد بیماریوں میں بھی فائدہ دیتا ہے۔
کھانسی، دمہ اور سینے کے درد کے لیے نصف گرام کالی مرچ کا سفوف شہد کے ساتھ شامل کر کے چاٹنا مفید ہے۔ معدے کی تقویت ، ضعف ہضم اور بھوک کی کمی دور کرنے کے لیے کالی مرچ، ہینگ اور سونٹھ ہم وزن لے کر چنے کے برابر گولیاں بنا لی جائیں۔ ایک ایک گولی تینوں وقت کھانے کے بعد استعمال کی جائے۔ گلا بیٹھنے کی صورت میں گیارہ کالی مرچیں بتاشے میں رکھ کر چبائی جائیں۔
لقوے کے مرض میں کوئی بھی دوا کالی مرچ سے زیادہ مفید نہیں سمجھی جاتی۔ کالی مرچوں کو باریک پیس کر کسی روغن میں ملا کر ماؤف مقام پر لیپ کیا جائے۔ جن مرکبات میں کالی مرچ شامل ہوتی ہے ان کے استعمال سے بھوک میں اضافہ ہوتا ہے چنانچہ جوارش کمونی جو طب یونانی کا مشہور مرکب ہے اس میں کالی مرچ شامل کی جاتی ہے چنانچہ اس کے کھانے سے بھوک بڑھ جاتی ہے اور کھانا ہضم ہو جاتا ہے۔
کالی مرچ کھانے والا خراب سے خراب آب و ہوا میں بھی بیمار نہیں ہوتا۔ اطباء کا کہنا ہے کہ کالی مرچ روزانہ کھانے کا طریقہ یوں ہے کہ طلوع آفتاب سے پہلے یا سورج طلوع ہونے تک کالی مرچ کے دانے چبائے جب اچھی طرح دانتوں میں باریک ہوجائیں تو بعد میں دودھ یا چائے پی لے یا انڈا کھالے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی عمر کے حساب سے اس کو استعمال کرے۔
بچے کو روزانہ ایک دانہ دیں جبکہ بڑے روزانہ پانچ دانے چبا کر اور چوس کر کھائیں۔ کالی مرچ کے سونگھنے (نسوار کی شکل) سے درد شقیقہ کو بے حد فائدہ ہوتا ہے۔ شہد میں ملا کر کھانا باعث مقوی باہ ہے۔ سینے کا درد دور کرنے اور پھیپھڑوں سے بلغم خارج کرنے کے لیے شہد میں ملا کر چاٹنے سے فائدہ ہوتا ہے۔
اس میں فولاد اور وٹامن بی اور ای شامل ہوتے ہیں۔ کالی مرچ کے استعمال سے بند پیشاب کھل جاتا ہے۔
نوٹ: درد گردہ کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو کالی مرچ کا استعمال مناسب نہیں، گرم مزاج والے لوگ کم سے کم استعمال کریں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ کھانے میں ڈالنے سے ہٹ کر بھی یہ کتنی فائدہ مند ہے؟ جی ہاں مختلف امراض کے ساتھ ساتھ یہ بہت کچھ ایسا کرتی ہے جو آپ کو حیران کردے گا۔
پیٹ کے مسائل دور کرے:
غذا میں کالی مرچ کا زیادہ استعمال معدے کے لیے بہتر ہوتا ہے کیونکہ یہ کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے، جبکہ یہ معدے کے ایسے تیزاب کو بھی حرکت میں لاتی ہے جس سے کھانے جلد ہضم ہوتا ہے اور قبض ختم ہوجاتا ہے۔
گیلی کھانسی سے آرام:
گیلی کھانسی پر قابو پانا چاہتے ہیں تو کالی مرچ کو شہد کے ساتھ چائے میں استعمال کریں۔ کالی مرچ بلغم کو حرکت میں لائے گی جبکہ شہد کھانسی سے آرام دلانے والی قدرتی چیز ہے۔ ایک چائے کا چمچ پسی ہوئی کالی مرچ اور دو چائے کے چمچ ایک کپ میں ڈالیں، اس کے بعد اسے ابلتے ہوئے پانی سے بھردیں اور پندرہ منٹ بعد ہلا کر پی لیں۔ ایک اور گھریلو ٹوٹکا یہ ہے کہ لیموں کی قاش پر کالی مرچ چھڑکیں اور اس قاش کو جتنا ہوسکے چوسیں تاکہ کھانسی سے فوری ریلیف مل سکے۔
کپڑوں کے رنگ مدھم نہ ہونے دے:
دھونے سے آپ کی پسندیدہ شوخ رنگ کپڑوں کا رنگ مدھم ہوگیا ہے؟ اگر ہاں تو اگلی بار دھوتے ہوئے ایک چائے کا چمچ کالی مرچیں واشنگ مشین میں ڈالے گئے کپڑوں پر چھڑک دیں، جس کے بعد مشین کو چلائیں۔ یہ رنگوں کو برقرار رکھے گی۔
تمباکو نوشی ترک کریں:
ایک تحقیق کے مطابق نکوٹین استعمال کرنے والے کالی مرچ کے تیل کی مہک کو سونگھتے ہیں تو تمباکو نوشی کے لیے ان کی خواہش میں کمی آتی ہے۔ ایسے کرنے سے لوگوں کے گلے میں ایک جلن سی پیدا ہوتی ہے جو کہ کچھ ایسا لطف پہنچاتی ہے جیسے سگریٹ پیتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔
تھکے ہوئے مسلز کو آرام پہنچائیں:
ورزش کے بعد عدم اطمینان محسوس ہورہا ہے؟ تنے ہوئے مسلز کو ڈھیلا کرنے کے لیے سیاہ مرچ کے تیل سے مالش کریں، یہ ایک گرم تیل مانا جاتا ہے جو اس جگہ خون کی گردش اور حرارت بڑھا دیتا ہے جہاں اسے لگایا جائے۔ دو قطرے سیاہ مرچ کے تیل کو چار قطرے روز میری آئل میں ملائیں اور پھر اسے براہ راست جہاں لگانا ہو لگالیں۔
جلدی نگہداشت کے لیے فائدہ مند:
کالی مرچ جراثیم کش اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے جو شفاف جلد کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ یہ مرچ خون کی گردش کو قدرتی طور پر بڑھا دیتی ہے اور اپنی حرارت سے جلد میں مساموں کو کھول کر ان کی صفائی کرتی ہے۔
کالی مرچ کا پودا آپ گھر میں گملے یا زمین میں بھی لگا سکتے ہیں اور اس کے بے شمار فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن خیال رکھنا نرسری والے آپ کو غلط پودا نہ پکڑا دیں۔ جسے وہ کالی مرچ کہتے ہیں وہ اصلی نہیں بلکہ سجاوٹی پودا ہے جس کے پتوں سے کالی مرچ کی خوشبو آتی ہے۔
مفاد عامہ کے لیے پیش کیا گیا۔۔۔ اپنے معالج سے مشاورت ضرور کریں.۔
CnC. #MQS