March 22, 2025

What should be fed to the person coming home .

 
گھر آنے والے کو کیا کھلایا جائے..؟؟؟

ایک عمومی معاشرتی رویہ جس کی وجہ سے تکلفات میں اضافہ اور دلوں میں فاصلے بڑھ گئے۔۔۔
یعنی پہلے ایک وقت تھا جب ملنا ملانا اہم ہوا کرتا تھا۔ کسی کے گھر آنے جانے کے لئے تکلفات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ نہ ہی گھر کے مکینوں کو بطور میزبان یہ فکر ہوتی تھی کہ آنے والے کو کیا کھلایا پلایا جائے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ مطلب جو گھر میں پکا ہوتا وہی آگے رکھ دیا جاتا۔ اور مہمان نے کبھی یہ فکر نہیں کی کہ کسی کے گھر جانے سے پہلے کیا ایسا تحفہ دیا جائے جو سب سے بہترین اور مہنگا ہو۔ یا وہ اس بات پر کبھی بیزار نہیں ہوا کہ اس کو کیا کھلایا گیا اور کہاں بٹھایا گیا۔ ۔ یعنی دو طرفہ تعلقات میں مادی چیزیں زیادہ آڑے نہیں آتی تھیں۔۔۔۔ لہٰذا ملنے والے کو جب یاد ستائی، وہ چلا آیا اور میزبان پر چونکہ پروٹوکول کا علیحدہ سے بوجھ نہیں پڑتا تھا سو وہ خوشی خوشی ملتا تھا۔
آج کے جدید دور میں جہاں بہت ساری اچھی باتیں اور ترقیاں ہوئی ہیں،،، وہاں کچھ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جو بحیثیت افراد ہمیں اپنوں سے دور کر گئے ۔۔۔ مثلاً ایک خاص طرز پر ہی ملنا جلنا، جو کہ زیادہ تر انویٹیشن کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے چاہے وہ کھانے کی دعوت ہو یا چائے کی۔ پھر اس کے لئے خصوصی اہتمام ۔۔ جس پر فی زمانہ اچھا خاصہ خرچا آتا ہے۔ اور مہمان کو یہ فکر کہ آج یہ سب کھا کے آئیں ہیں تو اب اسی معیار کا کھلانا بھی ہو گا۔ اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے پر جو پریشانی بعد میں آئے گی۔ اس کے پیشِ نظر وہ دعوت قبول کرنے سے بھی ہچکچانے لگتا ہے۔
اچھا مزید برآں ۔۔۔ کچھ رشتہ دار خود 10طرح کی ڈشیز بنا کے آگے رکھ کر اپنی امارت کا رعب تو ڈالتے ہی ہیں۔۔۔ پھر اس بات پر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ہم نے تو اتنی خاطر مدارت کی۔۔ جبکہ ہمارے آنے پر بس وہی 2 ڈشیز ہمارے آگے رکھی گئیں۔
سو لوگ ہر بار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔۔۔
اس پوری کھینچا تانی میں وہ قہقہے اور بے فکریاں کہیں گم ہوگئے۔۔ جو سادگی اور بے دھڑک ہو کر ملنے جلنے میں تھے۔
آج اگر کوئی کسی کو اس سے بڑھ چڑھ کر کھلا نہ سکے تو وہ خود کہیں آنے جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ کہ کھائیں گے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ وہ بھی جوابی طور پر پہلے سے بڑھ کر۔۔۔۔۔۔
سو دوستو۔
بات کل ملا کے یہ ہے کہ وہ بہن بھائیوں ، یاروں دوستوں اور دوسرے خونی رشتوں میں جہاں یہ تکلفات آڑے آنا ہمیں اکیلا اور تنہا کر گیا،،، وہاں یہ ہماری معصومیت بھی لے گیا۔ آج کے دور میں ہم جتنا رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے ساتھ پھونک پھونک کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں
کیا کبھی بچپن میں ایسے ملا کرتے تھے؟؟؟؟
بچپن کے دوست آج بھی ملیں تو خوشی کا احساس ، سرور کی کیفیت اور قہقہوں کا شور ہی اور ہوتا ہے۔ اب جو دوست بنائے جائیں ان کے سامنے بھی ہمیں رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پیش آنا ہوتا ہے
ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں ججمنٹل نہ ہو جائیں۔ وہ سب کچھ نہ جان لیں جو ہم نے بڑی محنت سے چھپایا ہے۔ کیونکہ اس سے ہماری عزت ، رتبے، معیارات میں کمی آئے گی تو دوستی پر بھی فرق پڑے گا۔۔۔۔
کبھی وہ وقت تھا کہ ظاہری حلیہ اور مادی چیزیں رشتوں سے پیچھے تھیں اور بھروسہ آگے تھا۔۔۔انسان خوش تھا۔
اب یہ وقت ہے کہ ظاہری طور و اطوار رشتوں، دوستیوں اور محبتوں سے آگے بڑھ گئے ۔ انسان اندر سے خالی ہوتا چلا گیا
اور آج وہ ہجوم اور بھیڑ میں بھی تنہا ہے۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس ایک بھی ایسا رشتہ اور تعلق نہیں،،،، جس کے سامنے وہ اپنے اندر کی کمیاں خامیاں عیاں کر سکے، اپنی ذات کی ناکامیاں رکھ سکے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف دھڑلے سے کر سکے ۔ اسے یہ خوف نہ ہو کہ وہ اس کے بارے کیا سوچے گا یا جج کرے گا۔۔۔۔۔۔
سو اگر آپ کے پاس ایسا کوئی رشتہ ہو۔۔۔۔ بہن بھائیوں ، دوستوں میں۔۔۔۔ تو اسے ظاہریت کی بھینٹ کبھی نہ چڑھنے دیں۔ اسے کھانے کھلانے کی ٹینشن ، پہناوے، آن بان شان کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔۔۔
بچوں کے جیسے معصوم ، بے فکر تعلقات انسان کو اندر سے زندہ رکھتے ہیں۔ ورنہ وہ جی نہیں رہا ہوتا۔۔۔ صرف سانس لے رہا ہوتا ہے۔۔۔

Teen age Mothers, Sex Education, Moral Graounds, & Double Face Judgements

مغربیت، دیسی لبرلزم اور حقیقت! - بلال شوکت آزاد
دنیا میں کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو خالصتاً عقل و منطق سے حل کیے جا سکتے ہیں، مگر کچھ معاملات میں منافقت، دوغلے معیار اور مخصوص ایجنڈے اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ سچائی آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی لوگ اسے قبول نہیں کرتے۔ ایک ایسا ہی مسئلہ "مغربیت" اور ہمارے ہاں کی "دیسی لبرلیت" کا ہے، جو ہمیشہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کرتی ہے۔
آج کی دنیا میں اگر کسی مغربی ملک میں 13 سال کی بچی زنا کے نتیجے میں ماں بن جائے، تو اسے "معاشرتی حقیقت" اور "آزادیِ انتخاب" کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ میڈیا اس پر رپورٹنگ کرے گا، نفسیاتی تجزیے پیش ہوں گے، اور اس کے "سپورٹ سسٹم" کو سراہا جائے گا کہ کیسے سوسائٹی نے اسے قبول کیا، کیسے سوشل ویلفیئر نے اسے سہارا دیا، اور کیسے اس کے ساتھ "ججمنٹل" رویہ نہیں اپنایا گیا۔ یہاں تک کہ شاید کوئی بڑا میگزین اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ دے گا کہ "نوجوان ماؤں کی زندگی پر اس حمل کے اثرات" اور ان کا "سماجی مستقبل" کیا ہوگا۔
لیکن اگر یہی تیرہ سال کی بچی کسی مسلمان ملک میں نکاح کے بعد رشتہ ازدواج میں بندھ جائے، تو مغربی میڈیا اور اس کے پاکستانی چمچے چیخ و پکار شروع کر دیں گے:
"یہ ظلم ہے!"
"یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے!"
"یہ بچی کا بچپن چھیننے کے مترادف ہے!"
"یہ پدرشاہی کی جیت اور خواتین کے حقوق کی شکست ہے!"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 13 سال کی بچی شادی نہیں کر سکتی، تو وہ ماں کیسے بن سکتی ہے؟ اگر وہ شادی کے لیے "کم عمر" ہے، تو پھر زنا کے لیے عمر کی کوئی حد کیوں نہیں؟ اگر وہ شادی کے بعد کسی ذمہ دار شوہر کے سہارے زندگی گزارنے کے قابل نہیں، تو بغیر باپ کے ناجائز بچے کو پالنے کے قابل کیسے ہے؟
یہ وہ منافقت ہے جو ہمارے معاشروں میں رائج کی جا رہی ہے، اور حیرت انگیز طور پر ہمارے کچھ دیسی لبرل بھی اسے آنکھیں بند کرکے قبول کر رہے ہیں۔
مغرب میں "آزادی" کا تصور درحقیقت محض ایک فریب ہے۔ یہاں ہر قسم کی جنسی بے راہ روی کو "پرسنل چوائس" کہہ کر قبول کر لیا جاتا ہے، مگر جب کوئی مذہبی اصول کے تحت کوئی کام کرے، تو اسے ظلم اور جبر کہہ دیا جاتا ہے۔
مثلاً، اگر ایک 15 سالہ لڑکی اپنے "بوائے فرینڈ" کے ساتھ رہنا شروع کر دے، تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ کسی اسلامی نکاح کے بندھن میں بندھ جائے، تو فوراً "چائلڈ میریج" کے خلاف قانون سازی کی باتیں شروع ہو جائیں گی۔ اگر کوئی نوجوان جوڑا بغیر شادی کے ساتھ رہے، تو مغربی معاشرہ اسے "کپل گولز" قرار دیتا ہے، مگر اگر کوئی مسلمان لڑکی اپنے والدین کی مرضی سے شادی کر لے، تو کہا جاتا ہے کہ "یہ ظلم ہے، اسے خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا!"
یعنی، لڑکی کو "فیصلہ" صرف اسی صورت میں کرنے کی اجازت ہے جب وہ مغربی نظریات کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر وہ اسلام کے مطابق کوئی قدم اٹھائے، تو یہ "دماغی کنڈیشننگ" اور "دباؤ" کہلائے گا۔
ہمارے دیسی لبرلز کی مثال ان غلاموں کی سی ہے جو اپنے آقاؤں کی ہر بات پر سر جھکاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جو مغرب میں ہوتی ہے، وہ ترقی ہے، اور ہر وہ چیز جو اسلام میں ہے، وہ دقیانوسیت۔
یہ وہی لوگ ہیں جو حقوقِ نسواں کے نام پر "فریڈم آف چوائس" کے گیت گاتے ہیں، مگر جب کوئی لڑکی اپنی مرضی سے اسلامی لباس پہننے کا فیصلہ کرے، تو فوراً کہتے ہیں کہ "یہ دقیانوسی سوچ ہے!" یعنی، "آزادی" صرف وہی ہے جو مغرب میں دی جا رہی ہو، باقی سب غلامی ہے۔
یہی دیسی لبرلز آج مغرب کے سیکس ایجوکیشن نصاب کی حمایت کرتے ہیں، جس میں چھوٹے بچوں کو LGBTQ اور "آزاد جنسی زندگی" کی تعلیم دی جاتی ہے، مگر جب کوئی مدرسہ یا دینی ادارہ بچوں کو اسلامی تعلیم دے، تو یہ فوراً اسے "انتہا پسندی" قرار دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کب تک ہم مغرب کی اس منافقت کو دیکھ کر خاموش رہیں گے؟ کب تک ہم ان دوہرے معیارات کو نظر انداز کریں گے؟ کب تک ہمارے دیسی لبرلز مغرب کی غلامی کرتے رہیں گے؟
اگر 13 سال کی بچی کی شادی قابلِ اعتراض ہے، تو 13 سال کی بچی کا زنا بھی قابل اعتراض ہونا چاہیے۔
اگر خواتین کے حقوق کے نام پر انہیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق دیا جاتا ہے، تو انہیں اسلامی نکاح کرنے کا بھی پورا حق ہونا چاہیے۔
اگر ہم "آزادی" کے حامی ہیں، تو یہ آزادی صرف بے راہ روی تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہر انسان کو اپنے مذہب، عقیدے، اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا بھی پورا اختیار ہونا چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس منافقت کو بے نقاب کریں۔ مغربی معاشرے کے دوغلے معیار صرف ان کے لیے نہیں، بلکہ ہمارے معاشروں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ ہمیں اپنے اسلامی اصولوں اور روایات پر فخر کرنا چاہیے، نہ کہ مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے ہی مذہب، تہذیب اور ثقافت کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دیسی لبرلز کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر آج وہ مغربی غلامی کے نشے میں مست ہو کر اپنی روایات کا مذاق اڑا رہے ہیں، تو کل یہی مغرب ان کے لیے نئے قوانین بنائے گا، جہاں ان کے پاس نہ اپنی شناخت ہوگی، نہ آزادی۔
اور پھر یہ وہی دیسی لبرلز ہوں گے جو آنسو بہا کر کہیں گے: "ہم کہاں کھڑے ہیں؟"

Terminalia Arjuna Combretaceae (Arjun Tree) ارجن

ارجن: دل کا محافظ درخت*

تریفل(ترپھلہ) کے جزو ہریڑ اور بہیڑہ کے خاندان کمبری ٹیسی سے تعلق رکھنے والے اس درخت کا نباتاتی نام ٹرمینالیا ارجونا ہے
ارجن (Arjun)ایک قد آور درخت ہے۔ جو ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، میانمار اور کچھ دوسرے ایشیائی ممالک میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ پتے امرود کے پتوں جیسے قریبا چار پانچ انچ لمبے اور ایک سے دو انچ چوڑے ہوتے ہیں اور دس پتوں سے لے کر پندرہ پتے ایک شاخ میں لگتے ہیں۔اسکے پھول لمبے اور گچھے نما ہوتے ہیں اور اسکے بیج لکڑی کی طرح اور پانچ کونوں والے ہوتے ہیں۔اس کے پھل لمبے اورسبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ ماہ جولائی میں اس کو پھل کثرت سے لگتے ہیں۔اسکو بیج اور قلم دونوں طریقوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
لاہور کے لارنس باغ میں بھی ارجن کے کئی درخت ہیں۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہ درخت شہروں میں سڑک کنارے اکثر لگائے جاتے تھے لیکن بعد میں کسی دور میں ہزاروں کی تعداد میں ان پرانے درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ لیکن اب گذشتہ دس پندرہ سال میں محکمہ جنگلات پنجاب اور خصوصا موٹر وے اتھارٹی والوں نے اسکے سینکڑوں درخت لاہور۔اسلام آباد موٹر وے کے اطراف میں لگائے ہیں۔
اسکی لکڑی کافی ٹھوس قسم کی ہوتی ہے اوریہ ان درختوں میں شامل ہے جن کی لکڑی فی کیوبک میٹر ایک ٹن کے قریب ہوتی ہے۔یہ درخت سینکڑوں سال تک قائم رہتا ہے اور بظاہر اسے کوئی بیماری بھی نہیں لگتی۔
ایک اعلیٰ قسم کا ریشم کا کیڑاجسے Tussar silk کہا جاتا ہے، اس ریشم کے کیڑے اس درخت کے پتوں پر پالے جاتے ہیں۔
اس درخت کو طب میں بہت اہمیت حاصل ہے اور ہزاروں سال سے اس درخت کے مرکبات مختلف ادویات اور بیماریوں سے بچاؤ کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔خاص طور پر دل سے متعلقہ بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کیلئے اسکی چھال کو ابال کر پیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس درخت کو ''دل کا محافظ'' درخت بھی کہا جاتا ہے۔
ارجن کو ہندی میں ارجنا،سنسکرت میں ارجن پرکھش، تامل میں مردتنے، بنگالی میں ارجن، گجراتی میں ساجد ان اور انگریزی میں بھی Arjun Tree ہی کہتے ہیں، اسکا نباتاتی نام Terminalia arjuna ہے۔
ارجن میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: ارجن کی چھال میں پندرہ فیصد ٹے نین، تیس فیصد کیلشِیم کاربونیٹ، سوڈیم اور گلوکوسائیڈ پایا جاتا ہے۔انکے علاوہ بیٹا سائیٹو سیٹرول،ٹرائی ٹرپی نائیڈسیونین،ارجونین،ارجونیٹین،ارجو نولک ایسڈ،فراری تیل،شکر،کے ساتھ تھوڑی مقدار میں میگنیشیم اور ایلومینیم کے نمکیات بھی ملتے ہیں۔
ارجنا کے پتوں سے ہومیوپیتھک میں مدر ٹنکچر (Q) تیار کی جاتی ہے۔ جو کہ دل کو طاقت دیتا ہے۔اس کی دھڑکن کو کم کرتا ہے۔ ارجن زہریلے اثرات سے پاک ہے۔
ارجن کے طبی فوائد:
دل کے امراض: ارجن کو دل کا محافظ درخت کہا جاتا ہے۔ اس کی چھال میں پایا جانے والا گلوکو سائیڈ انگریزی دواڈیجی ٹیلس (Digitalis)کی طرح دل کی دھڑکن کو ختم کرتا ہے اور دل کو طاقت دیتا ہے۔ تاہم ڈیجی ٹینس میں زہریلے ا ثرات ہوتے ہیں اور ارجن کی چھال کا گلو کو سائڈ بالکل بے ضرر ہوتاہے۔
اس کو دل کے فعلی اور عضویاتی امراض میں جیسے کہ درددل، انجائینا،خفقان،ورم بطانہ قلب،ورم غلاف القلب میں استعمال کیا جاتا ہے،اس کی سب سے اچھی خوبی اس کا بے ضرر ہونا ہے۔ اس کے دل پر کوئی زہریلے اثرات نہیں ہوتے۔ یہ ہائیپرٹینشن میں خاص طور پر مفید ہے۔
ارجن میں پائے جانے والے اجزاء دل کے نازک پٹھوں خون کی نالیوں کو مظبوط کرنے کے ساتھ خون میں چکنائی کو ہضم کرنے والے نظام کی اصلاح کر کے اسے فعال بناتے ہیں۔اینٹی اوکسیڈنٹ بطور دوا ایسے جزو کا نام ہے جو دوسرے اجزاء کو اکسیجن سے مل کر ٹھوس ہونے سے روکے جیسے کہ خون کی نالیوں میں چکنائی کا جمنا،ارجن کی چھال سے بننے والا قہوہ اپنی اینٹی اوکسیڈنٹ صلاحیت کی وجہ سے دل کے امراض میں انتہائی مفید ہے۔
ڈی این اے تحفظ: ارجن میں ایسے مرکبات ہیں جو ڈی این اے کو مختلف وجوہات سے پہنچنے والے نقصان سے بچانے میں معاون ہیں۔
قلبی صحت: یہ دل کے پٹھوں کو طاقت فراہم کرتا ہے اور خون کو پمپ کرنے کی دل کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔ اس میں کارڈیو حفاظتی اقدامات ہیں، جو دل کے زیادہ سے زیادہ افعال کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے اور کارڈیک چوٹ کی بحالی کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ عام طور پر مایوکارڈیل انفکشن (ہارٹ اٹیک) سے بچاؤ کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں اینٹی ایٹروجینک پراپرٹی ہے، جو کورونری شریانوں میں پیدا ہونے والی سختی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور دل کے ٹشووں میں خون کے بہاؤ کو بہتر بناتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کا علاج: ہائی بلڈ پریشر کیلئے ارجن ایک بہترین گھریلو علاج ہے۔ ہائی بلڈ پریشر ایک انتہائی سنگین طبی حالت ہے جو دل کی ناکامی، فالج، دل کا دورہ، گردے کی خرابی اور دیگر سنگین پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی عام علامات میں شدید سردرد، متلی، الٹی، الجھن، ناک سے خون بہنا وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا قدرتی طور پر ہائی بلڈ پریشر کا علاج کرنے کے لئے ارجن سے بہتر کوئی قدرتی دوا نہیں ہے۔
بواسیر اور خون بہہنے والی امراض: ارجن میں پائے جانے والے قدرتی مادے میں اینٹی ہیمرجک پراپرٹی ہے، جس سے بہتے خون کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ یونانی طب میں عام طور پر دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ خون بہہ جانے والی عوارض کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
ارجن کے دیگر استعمال: ارجن قدرت کا ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ارجن کی چھال کا جوشاندہ دست، پیچش، جریان خون اور جریان منی میں مفید ہے۔ اگر اس کی چھال کے جوشاندہ سے زخموں کو دھویا جائے تو جلدی مندمل ہو جاتے ہیں۔ اس کی چھال کے سفوف کو کیل مہاسے اور چھائیوں میں استعمال کرنا مفید ہے۔ معمولی چوٹ میں چھال کو پانی میں پیس کر لیپ کر لینا کافی ہے۔ اس کی چھال سے بہترین کھاد بنائی جاتی ہے۔ بنگال (مدنا پور) میں اس کی چھال خاکی کپڑہ رنگنے میں کام آتی ہے۔ ارجن کی چھال کا سفوف دودھ یا پانی کے ہمراہ چو ٹ لگنے اور ہڈی ٹوٹنے میں کھلاتے ہیں۔ جب کے خون جمنے سے جلد پر سرخ یا نیلے رنگ کے داغ پڑ گئے ہوں۔ پتے تیل میں جلا کر کان میں ڈالنا کان درد کے لئے مفید ہے۔ پھل کا سفوف چار گرام ہمراہ پانی قبض کو کھولتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

 copy paste from facebook


March 13, 2025

Namibia Beautiful desert & Atlantic Ocean


 

دنیا میں نمیبیا وہ واحد ملک ہے جہاں کا ساحلِ سمندر براہِ راست ایک وسیع صحرا سے جا ملتا ہے۔ یہ منفرد جغرافیائی امتزاج نمیبیا کو ایک حیرت انگیز قدرتی منظر فراہم کرتا ہے، جو دنیا میں اور کہیں نہیں ملتا۔

نمیبیا کا ساحل اور صحرا: ایک انوکھا امتزاج
نمیب ڈیزرٹ (Namib Desert)، جو دنیا کے قدیم ترین صحراؤں میں شمار ہوتا ہے، تقریباً 55 ملین سال پرانا ہے۔ یہ صحرا نمیبیا کے مغربی ساحلی علاقے میں واقع ہے اور براہِ راست بحرِ اوقیانوس (Atlantic Ocean) سے جا ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ایک طرف گرم اور خشک ریت کے بلند و بالا ٹیلے (dunes) ہیں اور دوسری طرف ٹھنڈی سمندری ہوائیں چلتی ہیں۔

اہم خصوصیات:
مشہور سینڈ ڈونز (ریت کے ٹیلے):
نمیب صحرا میں Sossusvlei کے علاقے میں دنیا کے سب سے بلند ریت کے ٹیلے موجود ہیں، جن میں سے کچھ کی اونچائی 300 سے 400 میٹر تک ہے۔

کیلویری کلیف (Skeleton Coast):
نمیبیا کا ساحل Skeleton Coast کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ یہاں شدید دھند اور تیز ہواؤں کی وجہ سے کئی بحری جہاز تباہ ہو چکے ہیں۔ یہاں جہازوں کے ٹوٹے ہوئے ڈھانچے اور وہیل مچھلیوں کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔

نادر جنگلی حیات:
نمیب صحرا کے شدید موسمی حالات کے باوجود یہاں کئی خاص جانور پائے جاتے ہیں جیسے ریگستانی ہاتھی، صحرا کے شیر، اور اوریکس (Oryx) جو صحرائی زندگی کے مطابق خود کو ڈھال چکے ہیں۔

سمندری دھند (Coastal Fog):
نمیب صحرا میں پانی کی کمی کے باوجود نمیب کے ساحل پر ایک خاص قدرتی نظام ہے جہاں بحرِ اوقیانوس سے اٹھنے والی ٹھنڈی ہوائیں دھند بناتی ہیں، جو یہاں کے پودوں اور جانوروں کو زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے۔

دنیا میں ایسا منظر اور کہیں نہیں!
اگرچہ کچھ اور جگہوں پر بھی صحرا اور سمندر کا قرب موجود ہے، جیسے کہ چلی میں اٹاکاما صحرا (Atacama Desert) یا آسٹریلیا میں گریٹ وکٹوریا ڈیزرٹ (Great Victoria Desert)، لیکن نمیبیا وہ واحد ملک ہے جہاں صحرا براہ راست سمندر سے جا ملتا ہے اور ساحل پر حیرت انگیز قدرتی مناظر تخلیق کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نمیبیا کا یہ ساحلی صحرا سیاحوں، محققین اور فوٹوگرافروں کے لیے ایک دلچسپ مقام ہے، جو ایک ساتھ سمندر اور صحرا کی خوبصورتی کو ایک ہی جگہ دیکھنے آتے ہیں۔

 













March 11, 2025

Husband & Wife Relationship بیوی کو شوہر کی عزت کرنی چاہیئے۔

   بیوی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے شوہر کو وہ مقام حاصل ہے جو نہ باپ کو ہے اور نہ ہی ماں کو، حالانکہ ان دونوں کی عزت اپنی جگہ مسلم ہے۔ شوہر گھر کا سربراہ ہوتا ہے، دیواروں کی حرارت، قربانی اور استحکام کی علامت ہوتا ہے۔ اس کی شرعی حیثیت محفوظ ہے، اور مغربی نظریات یا فیمینزم کی کوششیں درحقیقت خاندان کو کمزور بنانے کے حربے ہیں، تاکہ بیوی کے دل میں شوہر کی عزت کم ہو جائے، یہاں تک کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ وہ شوہر کے بغیر بہتر ہے، بغیر کسی پابندی کے، بغیر کسی ذمہ داری کے، بغیر کسی مردانہ اقتدار کے!

یہ سوچ پہلے احساساتی علیحدگی کا سبب بنتی ہے، اور پھر حقیقی علیحدگی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد، جب عمر بڑھتی ہے، دوست اپنی اپنی مصروفیات میں کھو جاتے ہیں، قریبی لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، تب عورت خود کو اکیلا پاتی ہے، نہ شوہر، نہ اولاد، نہ کوئی ہمدرد!

لہٰذا، ازدواجی زندگی کا احترام عورت کے شوہر کے احترام سے شروع ہوتا ہے۔ اگر بیوی شوہر کو اس کا جائز مقام دے اور اس کی خوشنودی کے لیے کوشش کرے، تو بچے بھی باپ کی قدر کریں گے، اور بیٹیاں اپنے مستقبل کے شوہر کا احترام کرنا سیکھیں گی۔ کیونکہ ایک اچھی بیوی اپنی اولاد کے لیے بہترین درسگاہ ہوتی ہے۔

یہاں اُس شوہر کی بات ہو رہی ہے جو معتدل مزاج، نیک خصلت اور متوازن شخصیت رکھتا ہو— جو کبھی کامیاب ہوتا ہے، کبھی ناکام، کبھی درست فیصلے کرتا ہے، کبھی غلطی کر بیٹھتا ہے، جو کوشش کرتا ہے، کبھی سستی دکھاتا ہے، گناہ کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے، زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے، بھولتا ہے اور یاد کرتا ہے، کیونکہ وہ ایک انسان ہے اور انسان سے خطا بھی ہوتی ہے۔ مگر اس کی اصل نیت نیک اور کردار عزت دار ہوتا ہے، لہٰذا اس کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، کیونکہ وہ بھی احترام اور حسن سلوک کا مستحق ہے۔

لیکن جو شوہر ظالم، مغرور، بخیل، جھوٹا، بددیانت، یا مسلسل خیانت کرنے والا ہو، وہ اپنے خاندان میں عزت کھو دیتا ہے، چاہے ظاہری طور پر ایسا نہ لگے۔ شرع نے ہمیشہ عدل اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے، لیکن اس کا اطلاق تبھی ممکن ہوتا ہے جب دونوں فریق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

جو شوہر اپنی بیوی اور اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اسے محبت ملے گی، اور جو باپ اپنے بچوں کی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کرے گا، اسے وہ عزت دیں گے جس کا وہ حقدار ہے۔ یہی اصول ماں، بیٹے، بیٹی اور تمام رشتوں پر لاگو ہوتا ہے۔

شرعی طور پر جن رشتوں کے احترام اور محبت کا حکم دیا گیا ہے، اگر وہ اچھے کردار کے حامل ہوں، تو لوگ خودبخود ان کی عزت کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہی رشتے بدسلوکی، ناانصافی یا برے رویے کا مظاہرہ کریں، تو اردگرد کے لوگ الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ شرعی ذمہ داری کیسے پوری کریں۔ وہ بظاہر عزت تو کرتے ہیں، لیکن یہ عزت محبت کے بجائے صرف ایک فرض کی ادائیگی بن جاتی ہے۔

نتیجہ

بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کا احترام کرے اور اللہ کے احکامات کے مطابق اس کے حقوق ادا کرے۔
شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ عملی طور پر اپنی بیوی کو محبت اور حسن اخلاق سے وہ سہولت دے، جو اسے اس راہ پر گامزن کرے۔

اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ کوتاہی کرتا ہے، تو یہ دوسرے کے لیے بھی غلط رویہ اپنانے کا جواز نہیں بنتا۔
سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کی کوتاہی کے باوجود، اچھے اخلاق کے ساتھ اپنے فرائض پورے کرے، تاکہ ازدواجی زندگی مکمل اور متوازن رہے۔

Total Pageviews

111,817